Friday 27 November 2020

پاک فوج اور سرسبز و شاداب پاکستان

 

پاک فوج اور سرسبز و شاداب پاکستان             

پاکستان آرمی، حکومت پاکستان کے کلین گرین پاکستان (پانچ سالوں میں 10بلین درخت لگانے کی) مہم میں پیش پیش ہے۔ گزشتہ دنوں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ نے بھی اس مہم میں شامل ہوتے ہوئے درخت لگایا۔ 2018ء میں پاک فوج نے ''سرسبز و شاداب پاکستان '' کے نام سے اس مہم میں شمولیت اختیار کی اورافواجِ پاکستان کی مختلف فارمیشنز نے2018 سے اب تک تقریباً 29 ملین درخت لگائے جبکہ5ملین درخت صرف اس سال مون سون میں لگائے گئے۔آرمی چیف نے فورٹ عباس میں جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قدرتی ماحول کی بہتری کے لئے پاک فوج نے نہ صرف مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم میں حصہ لیا بلکہ جنگلات کو بے دریغ کٹائی سے بچانے میں دیگر قانون فافذ کرنے والے اداروں کی بھرپور مدد بھی کی۔



وزیرِاعظم عمران خان نے ملک بھر کے لوگوںکو ''کلین گرین پاکستان''  کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کوماحولیاتی خطرات سے مکمل آگاہی ہے اور وہ اس میں ملک بھر کے تمام شعبہ جات سے وابستہ افراد مثلاً لیڈرز، طالب علم، مزدوراورعام عوام کو اپنا کردار ادا کرنے پر زور دے رہی ہے۔
قرآن و احادیث میں بھی پودوں اور درختوں کا مفصل ذکر ہوا ہے کچھ پھل دار درختوں کا ذکرقرآنِ مجید میں بار بار کیاگیا جیسا کہ انجیر ، زیتوں ، انار ، انگور وغیرہ۔ درخت لگانا سنتِ رسولۖ بھی ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ۖ نے ارشاد فرمایا'' جو مسلمان کوئی پودا یا کھیتی بوتا ہے اور اس سے کوئی پرندہ یا انسان کھاتا ہے تو وہ اس کے لئے صدقہ بن جاتا ہے۔'' ہم میں سے کون ایسا ہوگا جو اپنے لئے صدقہ جاریہ کا اہتمام نہ کرنا چاہتا ہو۔ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں بار ہا لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آئو اور سوچو کہ میری پیدا کردہ  چیزوں میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ ان چیزوں میں درخت اور پودے بھی شامل ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی تیسری دنیا کے ممالک کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ نہ صرف لوگوں کی صحت کے لئے مضرہے بلکہ اس کرئہ ارض کے لئے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ شہروں کو صاف رکھنا، صفائی کی عادت اپنانا، مناسب نکاسیِ آب کا انتظام کرنا اور درخت لگانا ہمارے ملک کو سرسبز اور خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ ہمارا دین ''اسلام'' بھی ہمیں صفائی کی تلقین کرتا ہے اور اس کی ترغیب دینے کے لئے صفائی کو نصف ایمان بتایاگیا ہے۔ صفائی کے ساتھ ساتھ پودوں اور درختوں کا اضافہ نہ صرف ہمارے ماحول کو خوشگوار بناسکتا ہے بلکہ بنی نوع انسان اور اس خطۂ زمین کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ اس کے علاوہ درخت اور جنگلات جانوروں اور پرندوں کا مسکن بھی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں جنگلات تقریباً 80 فیصد جانوروں اور پرندوں کو اپنے اندر سمو ئے ہوئے ہیں اور ان پرندوں اور جانوروں سے تقریباً 13 ملین انسانوں کا روزگاربھی منسلک ہے۔
پاکستان فورسٹری آؤٹ لک کی ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان کے تقریباً 4.34 ملین ہیکٹرز علاقے پر جنگلات ہیں جو کہ ملک کا تقریبا پانچ فیصد ہے جب کہ کسی بھی ملک کی معتدل آب و ہوا کے لئے ملک کے 25 فیصدحصے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔ مالاکنڈ، خیبر پختونخوا اور ہزارہ میں کافی زیادہ رقبے پر جنگلات ہیں لیکن انتظامی بدحالی اور کرپشن کے باعث اربوں روپے مالیت کے درخت کاٹے جاچکے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کا نقصان ماحولیاتی آلودگی، زمینی کٹائو، بارشوں میں کمی، سیلاب، گلوبل وارمنگ اور لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ درخت فصلوں کو بھی موسم کی سختیوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔




درخت انسان کا قیمتی سرمایہ ہیں دیکھا جائے تو درخت ہمارے ماحول کو سنوارنے میں اہم کردار ادا رکرتے ہیں۔ انہی کی بدولت ہم صاف ہوا، غذا ، پانی، ایندھن ، پھل ، میوہ جات حاصل کرتے ہیں اس کے علاوہ بہت سے درختوں سے ہمیںادویات بنانے میں بھی مدد ملتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں درخت لگانے سے زیادہ ان کو کاٹنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ پاکستان اکنامک سروے (2018-19) میں بتایا گیا کہ ٹمبر اور فیول کی مد میںسالانہ تقریباً44 ملین کیوبک میٹر لکڑی استعمال ہوتی ہے جبکہ یہاں قدرتی جنگلوں کی سالانہ پیدوار تقریباً14.4 ملین کیوبک میٹر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جنگلات میں مزید کمی آتی جارہی ہے جو ہمارے ماحول کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ اگر درختوں کو کاٹنا ضروری ہے تو ہمیں چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگائیں۔ وزیراعظم پاکستان کے کلین گرین پاکستان پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہر شہری پر فرض ہے کہ بہتر ماحول ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن بہتر ماحول کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے گھروں میں پودے اور درخت لگائیں۔ دیہاتوں میں تو یہ سب اتنا مشکل نہیں کیونکہ وہاں جگہ میسر ہوتی ہے لیکن شہروں میں درخت لگانا کافی محنت طلب کام ہے پاکستان میں شہری آبادی کی اکثریت لوئر اور مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے ان کے لئے درخت اور پودے لگانا مشکل ہے۔ اس میں سب سے بہترین کام جو کیا جاسکتا ہے وہ کچن گارڈننگ  ہے۔ آپ اپنے گھر میں آسانی سے چھوٹے چھوٹے پوٹس میں روز مرہ استعمال ہونے والے جڑی بوٹیاں اور پودے لگا سکتے ہیں۔ جن سے گھر کا ماحول بھی اچھا رہے گا اور آپ کو سہولت بھی رہے گی۔آج کل گھروںکی چھتوں پر بھی لان بنانے کا رجحان نظر آرہا ہے جو دیکھنے میں خوبصورت بھی لگتے ہیں اور ماحول کو  بھی خوشگوار بناتے ہیں۔ لیکن چھت پر لان بنانے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ کسی آرکیٹیکٹ یا انجینیئر کو بلا کر اس سے مشورہ کرلیں کہ آپ کے گھر کی چھت اس سیٹنگ کی متحمل ہو سکتی ہے یا نہیں۔اس کے علاوہ جو لوگ نئی ہائوسنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں انہیں چاہئے کہ اس میں گرین بیلٹس لازمی رکھیں جہاں درخت بھی لگائے جاسکیں۔
اگر آپ اپنے علاقے میں درخت لگانا چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
٭ہمیشہ درخت ایسی جگہ پر لگائیں جہاں دھوپ ، ہوا اور روشنی کا مناسب انتظام ہو اور ایسے درخت کا انتخاب کریں جو آپ کے علاقے میں بہتر انداز میں نشو ونما پاسکے۔
٭جب درخت لگانے کے لئے جگہ کی کھدائی کریں تو پہلے اس بات کا یقین کرلیں کہ وہ جگہ پاور لائنز یا گھر کی یوٹیلٹی وائرز کے بہت پاس نہ ہو۔
٭جب درخت لگ جائے تو اسے مناسب مقدار میں پانی دیں، اگر کچھ ہفتوں تک بارش نہیں ہوتی تو درخت کو ضرور دیکھیں کہ اسے پانی کی ضرورت تو نہیں۔ عام طور پر درختوں کو ہفتے میںایک انچ پانی کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ نئے درخت کو ہر ہفتے 4 سے 10 گیلن پانی چاہئے ہوتا ہے۔
٭ درختوں کے لئے گوڈی بھی بہت ضروری ہے۔ یہ مٹی کو نرم رکھتی ہے اور خشک ہونے سے بچاتی ہے۔ اس لئے کوشش کریں کہ درخت کی وقتاً فوقتاً  گوڈی کرتے رہیں۔ تقریباً دو سے چار انچ تک درخت کی گوڈی کریں۔ 
٭درختوں کی کانٹ چھانٹ بھی باقاعدگی سے کرنی چاہئے۔ اس سے درخت کے بڑھنے کی رفتار بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ درخت کے ارد گرد سے گھاس اور خطرناک جڑی بوٹیوں کوبھی صاف کرتے رہنا چاہئے۔
٭درختوںکو بڑھوتری دینے کے لئے ان کی خوارک میں کھاد بھی لازمی شامل کریں اس سے ان کو مناسب غذائی اجزاء ملتے ہیں۔ کوشش کریں کہ درختوں کو باقاعدگی سے کھاد ڈالیں۔
٭سردی میں درختوں کو موسم کی شدت سے بچانے کے لئے درخت کو شیٹ، ٹاٹ یا موٹے کپڑے سے اس طرح ڈھانپ کر رکھیں کہ زمین کی گرمائش پودے تک پہنچے۔
٭اپنے درخت کو باقاعدگی سے چیک کریں۔ اکثر درخت کی لکڑی کو کیڑا لگنے کا خدشہ ہوتا ہے جو درخت کو بڑھنے نہیں دیتا اور لکڑی کو بھی کھوکھلا کردیتا ہے۔ اس لئے جیسے ہی کوئی ایسے نشانات ظاہر ہوں فوراً اس کا تدارک کریں۔
٭درخت کی مٹی کو بھی وقتاً فوقتاً چیک کروانا ضروری ہے۔ تاکہ اس کی زرخیزی چیک ہوتی رہے۔
یاد رکھیں کہ درخت بڑھنے میں وقت لیتے ہیںاس لئے ان کی مناسب دیکھ بھال کرتے رہیں وقت پر پانی دینا اور کھاد ڈالنا بہت ضروری ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی سے پاک ماحول ہم صرف درخت لگا کر ہی حاصل کرسکتے ہیں۔درخت لگانا صدقہ جاریہ بھی ہے اور آنے والی نسلوں کی بقا بھی۔ کوشش کریں کہ درخت لگانے کے لئے گھروں سے باہر بھی نکلیں، اپنے ارد گرد کے لوگوں میں درختوں کی اہمیت کو اُجاگر کریں اور ان کے ساتھ مل کر اپنے اطراف میں درخت لگائیں خاص طور پر نوجوان طالب علموں کو متحرک کریں اور ان کے گروپس بنا کر انہیں درخت لگانے کا ٹاسک دیں اور ان کی رہنمائی کریں۔

Thursday 26 November 2020

علامہ اقبال : یورپ، معاشیات ، اثرات اور نظریات

 علامہ اقبال : یورپ، معاشیات ، اثرات اور نظریات      






انسانی کیلنڈر کی تاریخ سے معاشی ارتقاء کا کوئی سرا نہیں ملتا ہے لیکن اس بات سے کسی مفکر اور معاشی دانشور کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ اشیاء کی قیمت اس کی محنت کرنے والے پر ہے۔اس کے بعد معاش کے ذرائع بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان ذرائع پر تصرف کرنا ہی آج کی جنگ و جدل کے بنیادی ستون ہیں۔تاریخی مادیت جنگل اور غاروں میں زندگی گزارنے سے لے کر موجودہ سائنس کی ترقی کے عہد تک انسان نے سماجی اور معاشی تاریخ کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ انسان کے غاروں میں رہنے والے دور کو اس لئے اشتراکی کہا جاسکتا ہے کہ اس میںسب لوگ مل جل کر زندگی بسر کرتے تھے۔استعمال کی چیزیں مشترک تھیں۔ فریڈرک اینگلز ، ''خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز'' میں لکھتے ہیں:

''آبادی بہت کم اور بکھری ہوئی تھی۔ وہ صرف قبیلوں کے رہنے کی جگہ میں گنجان ہوتی تھی۔ جس کے چاروں اطراف شکارگاہ ہوتی تھی اور اس کے آگے غیر مقبوضہ جنگل جو اسے دوسرے قبیلوں سے دور رکھتا تھا۔ محنت کی تقسیم محض ایک فطری چیز تھی۔ یہ تقسیم صرف مردوں اور عورتوں کے درمیان تھی۔مرد لڑائی پر جاتے تھے ، شکار کرتے تھے، مچھلی پکڑتے تھے، غذا کے لئے کچا مال لاتے تھے اور ان کاموں کے لئے ضروری اوزار بناتے تھے۔ عورتیں گھر سنبھالتی تھیں، کھانا پکاتی تھیں اور کپڑے بُنتی اور سیتی تھیں۔ مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے کام کے شعبے میں آپ اپنے مالک تھے۔ جنگل میں مرد اور گھر میں عورت کا بول بالا تھا۔ مرد ہتھیاروں اور شکار کرنے والے اوزاروں کے مالک تھے اور عورت گھر کے ساز و سامان اور برتنوں کی۔ گھرانا کمیونٹی تھا۔ جس میں کئی، اور اکثر بہت سے، خاندان ہوا کرتے تھے۔ جو کچھ مشترک طور پر کمایا جاتا تھا اور جسے مل کر استعمال کرتے تھے وہ سب کی مشترکہ ملکیت ہوتی تھی۔''(١)
اس کے بعد فرانس میں انقلاب سے جو معاشیات وجود میں آئی اس نے دنیا کے تمام مفکروں کو متاثر کیا۔ مشین ایجاد ہونے کے بعد پیداوری قوتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ کام جو ایک انسان کئی دنوں میں کرتا تھا اب مشین اس کام کو بہت کم وقت میں بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتی تھی۔ سجاد ظہیر، ''مارکسی فلسفہ ''میں لکھتے ہیں:
''سرمایہ دار منافع خوری کی غرض سے پیداوار کو فروغ دیتے ہیں تو وہ بڑے بڑے کارخانے فیکٹریاں قائم کرتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں ، لاکھوں مزدور بھی بڑے بڑے مرکزوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ داری پیداوار کے عمل میں ایک اجتماعی کیفیت پیدا کر دیتی ہے اور اس طرح خود اپنی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی ہے۔''(٢)
صنعتی انقلاب کے لئے جس طرح مشینوں نے راہ ہموار کی اُس کے اثرات موجودہ دور میں بھی جاری و ساری ہیں ۔ لیکن اس ترقی میں سائنس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سائنس نے ہی صنعتی انقلاب کو ممکن بنایا۔اس وجہ سے اب فرانس، برطانیہ اور جرمنی وغیرہ نے ایشیا اور افریقہ کے معاشی ذرائع پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور وہاں کے معدنی ذرائع کو بے دردی سے لوٹنا شروع کیا۔ وہاں سے خام مال کو لوٹ کر سمندری جہازوں کے ذریعے اپنے اپنے ممالک میں پہنچاتے تھے اور پھر اسے مشین سے گزار کردوبارہ یہ صنعت انہی غریب ممالک کے باشندوں میں مہنگے داموں بیچتے تھے۔لوٹ کھسوٹ اور معاشی ذرائع پر قبضے کی اس داستان کولیو پیوبرمین اپنی کتاب ''یورپ امیر کیسے بنا ''میں بیان کرتے ہیں:
''امریکہ میں سونے اور چاندی کی دریافت ، دیسی آبادی کی تباہی، زبردستی غلام بنانے کی مہم ، قدیم دیسی باشندوں کی امریکی کانوں میں تدفین، ہندوستان اور ویسٹ انڈیز پر فاتحانہ یلغار اور ان کی لوٹ کھسوٹ، اور افریقہ کے براعظم کا کالی چمڑی کے لوگوں کی تجارت کے لئے شکار گاہ بننا، یہ وہ بنیادیں تھیں جن پر سرمایہ دارانہ نظام کے دور جدید کی عمارت کھڑی کی گئی۔''(٣)
معیشت کے حوالے سے برصغیر کو نظر اندازنہیں کیا جا سکتا۔ یہ دور مغلوں کا دور تھا۔ مغلوں کے دور میں برصغیر معیشت کے لحاظ سے ایک سونے کی چڑیا تھی۔ ملک میں ضروریات زندگی وافرمقدار میں موجود تھیں ۔زرعی اجناس کی بہتات تھی۔ اس سب کا تذکرہ ششی تھرور کی کتاب Era of  Darksness  میں بڑی تحقیق سے کیا گیا ہے۔اس کے بعد جنگ آزادی 1857ء کے ناقابل فراموش واقعے کے اثرات نے محکوم عوام کو زبوں حال کردیا۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جنگ آزادی کے پس پردہ بھی سیاسی، اقتصادی، مذہبی عناصر کارفرما تھے۔زمینوں پر انگریزوں کا قبضہ، معاشی ذرائع پر تصرف، پینشن اور وظائف کی ضبطی، جاگیروں کا ضبط ہونا، اعلیٰ سرکاری ملازمتوں سے محرومی، ملکی صنعت پر قبضہ، تجارت پر قبضہ، قانون وراثت میں قبضے نے عوام پر برے اثرات مرتب کئے۔
مذکورہ عوامل کے اثرات نے بعد کے آنے والے تمام مفکروں اور دانشوروں کو متاثر کیا۔اس ضمن میں علامہ اقبال کو ایک شاعر نہیں بلکہ ایک سیاسی سماجی اور معاشی تحریک کہنا بے جا نہ ہوگا۔ ان کی شاعری کا پہلا دور 1905 تک کا ہے ۔ اس دور میں ان کی شاعری پر وطن پرستی کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ دوسرا دور 1905 سے 1908 تک ہے ۔پورپ کے جمالیاتی مناظر نے ان کی شاعری میں فطری رنگ کو ابھارا۔ اقبال کی شاعری کا تیسرا دور 1908 سے شروع ہوتا ہے جب وہ ایک نئے ولولے کے ساتھ ہندوستان آئے اور اپنی ساری علمی اور ادبی توانائی کو قوم کے نام کر دیا۔یہ دوراِن کی وفات پر منقطع ہوا۔ علامہ اقبال کی شاعری اور ان کے فن پر لاکھوں کتابیں تصنیف ہوئی ہیں ۔ لیکن علامہ اقبال کے معاشی نظریات پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد تو اقبال کے معاشی نظریات سے متعارف ہی نہیں۔ حالانکہ اقبال نے اپنا پہلا طویل مضمون '' قومی زندگی'' جو1904میں سر عبدالقادر کے رسالے '' مخزن'' میں شائع ہوا تھامعاشیات پر ہی تھا جس میں قومی زندگی کے لئے علامہ اقبال نے جو مضمون تخلیق کیا وہ صنعتی سرگرمیوں کا ہی احاطہ کرتا ہے۔اقبال کے معاشی تصورات کے حوالے سے ڈاکٹر صدیق جاویداپنی کتاب'' اقبال: نئی تفہیم ''میں لکھتے ہیں:
''بیسویں صدی کے پہلے عشرہ میں بھی اقبال نے اپنی نظم و نثر میں اقتصاد و معاش کے مسائل پر خاص توجہ دی ہے،اس زمانے میں اقبال مسلمانوں کی غربت اور افلاس کی درد ناک حالت سے شدید طور پر متاثر تھے۔''(٤)
1904 میں ہی علامہ اقبال کی پہلی نثری کاوش '' علم الاقتصاد'' منظر عام پر آئی۔ اُردو میں اقتصادیات پر یہ پہلی کتاب تسلیم کی جاتی ہے جس میں افلاس، اقتصادیات اور اخلاق کے باہمی تعلق کو ابھاراگیا۔ قوم کی معاشی بے رخی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کو سرے سے ہی کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ بہت عرصے تک اس کتاب کاکو ئی ایڈیشن شائع نہیں ہوا۔ کتاب کی معاشی اہمیت کے حوالے سے ڈاکٹر مرزا امجد علی بیگ لکھتے ہیں:
''کتاب علم الاقتصاد پانچ حصوں پر مشتمل ہے جلد اول میں صرف ایک باب ہے اور اس میں علم الاقتصاد کی ماہیت اور اس کے طریق تحقیق پر بحث کی گئی ہے۔حصہ دوم میں جو ابواب ہیں وہ پیدائشی دولت سے متعلق ہیں جو با لترتیب زمین، محنت سرمایہ اور پیدائشی دولت کے لحاظ سے کسی قوم کی قابلیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ حصہ سوم میں تبادلہ دولت کے چھ ابواب ہیں مسئلہ قدر تجارتِ بین الاقوام، زرِ نقد کی ماہیت اور اس کی قدر، حق الضرب، زرکاغذی اور اعتبار اور اس کی اہمیت پر بحث کی گئی ہے۔حصہ چہارم یعنی پیداوارِ دولت کے حصہ دار کے ذیل میں بھی چھ ابواب ہیں جن میں لگان، سود، منافع، اُجرت، دستکاروں کی حالت پر مقابلہ نا مکمل کا اثر اور مال گزاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حصہ پنجم کے تین ابوب ہیں جن میں آبادی وجہ معیشت، جدید ضروریات کی افزائش اور صرفِ دولت کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔''(٥)
اقبال کا کہنا ہے کہ جائیداد شخصی میں لگان خود پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ جیسے جیسے آبادی بڑھتی ہے کاشت اسی کو مد نظر رکھ کی جاتی ہے۔ اس لئے ان کا لگان بڑھ جاتا ہے۔ اسی بنا پر زمیندار امیر سے امیر تر ہوجاتا ہے حالانکہ اس میں وہ دولت بھی شامل ہوتی ہے جس میں اس کی محنت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔اس بنا پر علامہ اقبال کہتے ہیں کہ زمین کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ قومی ملکیت ہونی چاہیے ۔ علم الاقتصاد میں مزدوروں کی حالت اور افلاس پر جو تجزیہ کیا ہے اس کا اثر ان کی شاعری میں بھی موجود ہے:
تو قادر و عادل ہے، مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہئِ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تیری منتظر اے روزِ مکافات!(٦)
علامہ اقبال جب یورپ میں تھے تو یہ کمیونسٹوں کا دور تھا ۔ کیمونسٹ اپنی الگ حکومت چاہتے تھے جس کے لئے وہ سرگرداں نظر آرہے تھے۔ اشترکیوں کی پہلی کاوش روس میں نظر آتی ہے۔ اقبال اور کارل مارکس کے حوالے سے بھی خوب لکھا گیاہے۔اقبال نے اشتراکیت کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اس کے اثرات ''پیام مشرق''میں بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ''پیام مشرق'' میں ایسے موضوعات پر تین نظمیں بہت اہمیت کی حامل ہیں ان میں ''محاورہ مابین حکیم فرانسوی آگسٹس کومٹ و مزدور''اہم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جس طرح جسم انسانی میں ہر جسمانی حصے کا ایک مخصوص وظیفہ موجود ہے اسی طرح معیشت اور صنعتی کاروبار میں بھی یہ تقسیم موجود ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ فطرت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔کیونکہ اس میں کوئی ہاتھ سے کام لیتا ہے تو کوئی دماغ سے۔ اقبال یورپ کی ان تمام گمراہیوں سے اچھی طرح واقف تھے ۔علامہ اقبال کے نظریات کے مطابق یہ صرف اور صرف محنت کشوں کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔اس کا بہترین اظہار نظم '' خضرِ راہ '' میں ہوا ہے۔اس نظم کا پس منظر پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد تمام ایشیائی اقوام کے مسلمانوں کی معاشی حالت زار ہے جو مغربی سامراج کے رحم و کرم پر تھے۔خضر شاعر کے سوالوں کے جواب میں کہتا ہے:
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری
گرمیِ گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری
ساحرِ الموط نے تجھ کو دیا برگِ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخِ نبات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات
نظم پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:
''سرمایہ داروں کی فطانت نے اپنے اعمال کی پردہ پوشی کی غرض سے بہت سے بت تراش رکھے ہیں اور انھیں مختلف قسم کے گمراہ کن نام دیئے گئے ہیں، مثلاََنسل، قومیت، کلیسا اور سلطنت یا شہنشاہیت۔ پایانِ کار ان سب کا مقصد ایک ہی ہے ،یعنی بندہ مزدور کو فریب میں مبتلا رکھنا، اس کی شخصیت کو کچلنا اور اس کے اندر احساس ِ ذات کو فنا کر دینا۔''(٧)
مزدور سرمایہ دار کے فریب سے باکل آشنا نہیں ہوتا وہ سرمایہ داروں کی پیچیدہ ترکیبوں اور ہتھکنڈوں سے واقف نہیں ہوتا اس لئے آسانی سے مات کھا جانے کو اپنی تقدیر سمجھ بیٹھتا ہے۔ لیکن علامہ اقبال مزدور کو سرمایہ دار سے مغلوب نہ ہونے اور بندہ مزدور کو اپنے مستقبل کی تعمیر و تشکیلِ نو پر آمادہ کرتا ہے:
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
 زمین کی ملکیت کے معاملے میں علامہ اقبال قومی ملکیت کے حامی ہیں۔ کاشتکار سے ملک کے خزانے کے لئے کچھ حصہ تو حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن نا کردہ کار مالک کا اس میں کچھ حصہ نہیں۔ بال جبریل کی نظم'' الارض اللہ'' اسی خیال کو تقویت دیتی ہے:
دِہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
    مشہور نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں بھی ملکیت زمین کا تذکرہ احسن انداز سے بیان کیا ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا فکرو عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین
علامہ اقبال کے معاشی نظریات میں بے قید معیشت کو اہمیت حاصل ہے۔ 1903ء میں سرمایہ دارانہ نظام کا طوطی بول رہا تھا اور اس نظام میں نجی ملکیت کے ساتھ حکومت کی مداخلت سے آزاد اور بے لگام معیشت کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ لیکن علامہ اقبال اس بے قید معیشت کے مخالف تھے۔کیونکہ حقیقی آزادی قیود کو ختم کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس کے دائرہ کار کو اور وسیع کر دیتی ہے۔اس کی مخالفت نظم'' طلوع اسلام '' میں بھی کی گئی ہے۔
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
اس حوالے سے علامہ اقبال کی نظمیں جن میں اشترکیت، کارل مارکس کی آواز، لینن خدا کے حضور، طلوع اسلام، نالہئِ یتیم، قابل ذکر ہیں۔علامہ اقبال ثانوی تعلیم کے ساتھ صنعتی سر گرمیوں، مذہب اور صنعتی تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔علامہ اقبال کے پاس اقتصادیات کی ڈگری نہ تھی لیکن معاشی ماہر کی طرح اس کے ایک ایک پہلو سے بخوبی واقف ہیں۔ علامہ اقبال ایسی تعلیم کو رد کرتے ہیں جو تیشہ الحاد سے انسانیت، مزدور، اخلاق، دین، عمل اور حرکت پر کاری ضرب لگائے۔ ''علم الاقتصاد'' کے بعد پیام مشرق، جاوید نامہ، زبور عجم، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز میں ایسی بہت سی نظمیں ہیں جن میں علامہ اقبال نے سرمایہ داری اور مغربی معیشت کے اُن اصولوں پر کاری ضرب لگائی ہے جو اسلامی معیشت سے متصادم ہیں۔ علامہ اقبال کے معاشی تصورات اسلام کے معاشی اصولوں کے عین مطابق ہیں۔ علامہ اقبال نے معاشیات کی اہم کتب سے ضرور استفادہ کیا ہے جس کے اثرات کا ذکر اقبال نے ''علم الاقتصاد''کے دیباچہ میں کیا ہے لیکن علامہ اقبال دین اسلام کے معاشی اصولوں کے پابند ہیں۔علامہ اقبال کی نظم و نثر پر معاشی اثرات سے جو نظریات اخذ کئے جا سکتے ہیںاُن کا احاطہ ان نکات میں کیا گیا ہے:
 1۔    علامہ اقبال کے معاشی نظریات پر اقتصادیات کی مستند کتب کے اثرات موجود ہیں جن میں کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر مارشل کی کتاب Principles of Economics قابل ذکر ہے۔
 2۔    علامہ اقبال معاشیات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے ۔اقبال نے اپنا پہلا طویل مضمون'' قومی زندگی''لکھا تھا جس میں قومی ترقی کے حوالے سے صنعتی سرگرمیوں پر بحث کی ہے۔
 3۔    1904 میں علامہ اقبال کی پہلی نثری کتاب علم الاقتصاد معاشیات پر مستند کتاب تسلیم کی جاتی ہے جس میںافلاس، اقتصاد اور اخلاق کے باہمی تعلق کو ابھاراگیا ہے۔
 4۔    زمین کسی فرد کی نہیں بلکہ قومی ملکیت ہونی چاہئے۔ یہ تصور علامہ اقبال کی نثر و نظم دونوں میں تواتر سے بیان ہوا ہے۔
 5۔    علامہ اقبال سرمایہ داروں کے ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرتے ہیں اور مزدوروں کے حق میں ایک توانا آواز بن کرابھرتے ہیں۔
 6۔    علامہ اقبال بے قید معیشت کے مخالف تھے۔
 7۔    علامہ اقبال تعلیم کی اقتصادی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کا بجٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اس ضمن میں مسلم ممالک کی صورت حال ایک المیے سے کم نہیں۔
 8۔    علامہ اقبال کی مشہور نظم '' شکوہ'' میں غیر مسلم اور مسلمانوں کی اقتصادی اور سماجی حالت کا تقابل کیا گیا ہے۔شکوہ میں جن مسائل پر اقبال نے سوال اٹھائے ہیں اُن کے جواب اور حل ''جواب شکوہ''میں بیان کئے ہیں۔
 9۔    علامہ اقبال کارل مارکس سے متاثر تھے لیکن علامہ اقبال مارکس کے اُس تصور کے مخالف ہیں جن کا اطلاق روس میں کیا گیا تھا
10۔    اقتصاد کے حوالے سے علامہ اقبال کی نظمیں ابلیس کی مجلس شوریٰ، نالہئِ یتیم، شکوہ، جوابِ شکوہ، لینن خدا کے حضور،طلوع اسلام، خضرِ راہ، اشتراکیت وغیرہ اہم ہیں جن معیشت ، سرمایہ دار اور مزدوروں پر دلچسپ انداز سے اظہارخیال کیا گیا ہے۔
11۔    علامہ اقبال ایسے معاشی اصولوں کی مخالفت کرتے ہیں جو لادینیت پر مشتمل ہیں۔علامہ اقبال اسلام کے معاشی اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں

How To Convert To Islam

 

        How To Convert To Islam

How To Convert To Islam

HOW TO CONVERT TO ISLAM





The word 'Muslim' literally means a person who submits to the will of God, regardless of their background.

Converting to Islam is a very easy process and can be done online in privacy, or you can also do it in the presence of other Muslims. If you have a real desire to be a Muslim and believe that Islam is the true religion of God, then, all you need to do is say the "Shahada" (Declaration of Faith). The "Shahada" is the 1st of the five pillars of Islam.



As soon as you say the Shahada and believe in it sincerely, you immediately enter the fold of Islam and have become a Muslim!

As soon as you convert to Islam for the sake of God, Allah forgives ALL of your previous sins and you begin a new life with a clean slate, as if you had been reborn!

As soon as you accept Islam, it is an automatic repentance from your previous beliefs and ways. Your record is now clean and you should try to keep your record clean as much as possible.

The Declaration of Faith (Shahada)

To convert to Islam and become a Muslim, all you need to do is say the below testimony with conviction and understanding its meaning:

"Ash Shadoo an La ilaha illa Allah, Wa Ash Shadoo ana Muhammadan rasoolu Allah."

The translation of which is:

"I bare witness that there is no true god except God (Allah), and I bare witness that Muhammad is the (Final) Messenger of God."

As soon as you pronounce the above testimony with conviction, you have become a Muslim! You can do it alone, or you can do it with an adviser, ie another Muslim so they can help you.

Welcome to Islam and congratulations on your decision!

The first few days can be a little overwhelming so the first resource that we would like to give you is a website called  This website is dedicated to new Muslims and helps to guide you step by step to make the whole experience easy for you. Just watch the video below for Andrew's story and how much it has helped him.


Why Convert to Islam?

At the time when you pronounce your declaration of faith, you will feel an overwhelming feeling! This feeling is thousands of angels of the highest ranks descending from the heavens to witness you saying it and they bring with them, mercy from your Lord. Watch the video below titled 'Muslim Heart Softness Test' to see the affect of that very moment!

Allah is making a deal with you and Allah never fails in keeping His end of the deal. Allah says that the second you pronounce (say) your declaration of faith, He wipes away ALL of the sins that you have ever committed in your life no matter how great or small the sin was so that you start your life from that moment, reborn and without sin.

Isn't that an excellent deal?

Well, Allah makes an even better deal than that. Not only will He wipe away ALL of your sins but He will transform all of those sins into rewards and give them back to you, so not only do you start your life from that moment without sin but also, you will be wayyy in front with all of those rewards and will be the envy of every Muslim out there because we all still have sins.

It is up to you to keep away from sin so that you can retain your high status in Islam.

Do you want to know what the last person to get into paradise gets?

The last person into paradise is a person that hasn't done any good deeds in his life but he believes in the declaration of faith ie "Ash Shadoo an La ilaha illa Allah, Wa Ash Shadoo ana Muhammadan rasoolu Allah".... If I told you that you would get a whole country to yourself, for you to keep, would that make you happy? What about the whole Earth? Well, the last person to get into paradise will get 10 times this Earth and everything in it in size!!!

Can you imagine owning real estate that is 10 times the size of this Earth?

Well, that's the LAST person on level 1 and there are 99 levels in paradise. Level 1 compared to level 2 is like the size of a ring that you wear on your finger compared to the entire desert. So your ring is level 1 and the desert is level 2.

Level 2 is a ring in level 3's desert and so on all the way up to level 99.

So if level 1 will get 10 times this Earth, what will level 2 get?

It is up to us to try and achieve the highest level in Paradise and that should always be your goal ie by doing good deeds.

The ones who are most deserving of your good deeds are your parents and helping your parents will earn you the highest rewards so serve them well.

We only get 1 chance at life so use it wisely because we do not know when it will be our turn to die and once we die, that's it, we will NOT be coming back to try again. what's done is done.

If you do happen to fall into sin in the future, always turn to Allah in repentance ie Always ask Allah to forgive you.

Allah said that if the son of Adam (ie all human beings) came to Me with sins mounting to the sky, without associating any partners with Me and they asked me to forgive them, I would forgive them.

So be sure to always turn to Allah for in repentance.

Remember, don't try to do everything at once because it will be overwhelming for you. Take everything in baby steps ie 1 thing at a time.

The first baby step was your declaration of faith. The next baby step is learning how to pray.

Be sure to visit New Muslim Academy to begin your baby steps.

Wednesday 25 November 2020

ISLAM AND WOMEN'S RIGHTS

 Islam and Women's Rights

ISLAM AND WOMEN'S RIGHTS

God instructs men to be nice to their wives and to treat them well to the best of their ability: "And live with them in kindness..." (Quran 4:19)

The Messenger of God said, The most perfect of believers in belief is the best of them in character. The best of you are those who are the best to their women. The Prophet of Mercy tells us that a husband's treatment of his wife reflects a Muslim's good character, which in turn is a reflection of the man's faith.



Women in Islam are thought to be subjugated, degraded, oppressed - but are they really?

Are millions of Muslims simply that oppressive or are these misconceptions fabricated by a biased media?

"And for women are rights over men, similar to those of men over women."Qur'an 2:228

Over fourteen hundred years ago, Islam gave women rights that women in the West have only recently began to enjoy. In the 1930's, Annie Besant observed, "It is only in the last twenty years that Christian England has recognised the right of woman to property, while Islam has allowed this right from all times. It is a slander to say that Islam preaches that women have no souls." (The Life and Teachings of Mohammed, 1932).

Men and women all descended from a single person - the Prophet Adam (peace be upon him). Islam does not accept for either of them anything but justice and kind treatment.

Equal Reward & Equal Accountability

Men and women worship Allah in the same way, meaning they worship the same God (Allah), perform the same acts of worship, follow the same scripture, and hold the same beliefs. Allah (the Arabic word for the One true God of all creation), judges all human beings fairly and equitably. Allah emphasises the just treatment and reward due to both men and women in many verses of the Qur'an:

"Allah has promised to the believers, men and women, gardens under which rivers flow, to dwell therein, and beautiful mansions in gardens of everlasting bliss."Qur'an 9:72

"Never will I allow the loss of the work of any worker amongst you, male or female; you are of one another."Qur'an 3:195

These verses show that reward is dependent upon one's actions and not one's gender. Gender does not play any part in how a person is rewarded and judged.

If we compare Islam to other religions, we see that it offers justice between the sexes. For example, Islam dismisses the idea that Eve is more to blame than Adam for eating from the forbidden tree. According to Islam, Adam and Eve both sinned, they both repented and God forgave them both.

Equal Right to Knowledge

Both men and women are equally encouraged to seek knowledge. The Prophet (peace be upon him) said, "Education is compulsory for every Muslim."

Also, great female Muslim Scholars existed at and around the time of the Prophet (peace be upon him). Some were from his family and others were his companions or their daughters. Prominent amongst them was Aisha, the wife of the Prophet (peace be upon him) through whom a quarter of the Islamic law has been transmitted.

Other females were great scholars of jurisprudence and had famous male scholars as their students.

Equal Right to Choose a Spouse

Islam has honoured women by giving them the right to choose a spouse and keep their original family name once married. Additionally, many have the impression that parents force their daughters into marriage. This is a cultural practice, and has no basis in Islam. In fact, it is prohibited.

At the time of Prophet Muhammad (peace be upon him), a woman came to him and said, "My father has married me to my cousin to raise his social standing and I was forced into it." The Prophet sent for the girl's father and then in his presence gave the girl the option of remaining married or nullifying the marriage. She responded, "O Messenger of Allah, I have accepted what my father did, but I wanted to show other women (that they could not be forced into a marriage)."

Equal yet Different

While men and women have equal rights as a general principle, the specific rights and responsibilities granted to them are not identical. Men and women have complementary rights and responsibilities.

Aside from external and internal anatomical differences, scientists know there are many other subtle differences in the way the brains of men and women process language, information and emotion, just to mention a few.

A socio-biology expert, Edward O. Wilson of Harvard University, said that females tend to be higher than males in verbal skills, empathy and social skills, among other things, while men tend to be higher in independence, dominance, spatial and mathematical skills, rank-related aggression, and other characteristics.

It would be foolish to treat both genders the same and to ignore their differences. Islam teaches that men and women have complementary, yet different, roles because it is best suited to their nature. God says:

"And the male is not like the female."Qur'an 3:36

"Does not the One who created, know? And He is the Most Kind, the All Aware."Qur'an 67:14

The Family Unit

God created men and women to be different, with unique roles, skills and responsibilities. These differences are not viewed as evidences of superiority or inferiority, but of specialisation. In Islam, the family is of central importance. The man is responsible for the financial well being of the family while the woman contributes to the family's physical, educational and emotional well being. This encourages cooperation rather than competition. By fulfilling their mutual responsibilities, strong families are created and hence strong societies.

Also, emotionally, neither men nor women live a happy life without one another. Allah describes this beautifully by saying:

"They are clothing for you and you are clothing for them."Qur'an 2:187

Clothing provides comfort, warmth and security as well as making one look good - this is how the relationship between the husband and wife is defined in Islam.

Love & Mercy in Spousal Relations

The Prophet (peace be upon him) also encouraged men to treat their spouses in the best way, "The best of you are those who are best (in treatment) to their wives."

"And among His signs is that He created or you wives amongst yourselves that you may dwell in tranquillity with them; and He has put love and mercy between your (hearts). Surely in this are Signs for people who reflect."Qur'an 30:21

Aisha (the Prophet's wife) was once asked how the Prophet's conduct was in his home. She said, "He was like one of you at home, yet he was most lenient and most generous ... He was ready to give a helping hand to his wives in the ordinary work of the house, [he] sewed his own clothes and mended his own shoes." In general, he helped in whatever work his wives did.

Lofty Positions of Mothers & Daughters

A mother has the greatest influence on a child especially in the earlier years through her affection, care and love. Undoubtedly, the success of a society is due to mothers. Therefore, it is only right for Islam to honour and raise their status.

Allah says in the Qur'an:

"And we have enjoined on man to be dutiful and kind to his Parents, His mother bears him with hardship and she brings him forth with hardship."Qur'an 46:15

The Prophet (peace be upon him) was once asked, "O Messenger of Allah, who among people is most deserving of my good treatment?" He said, "Your mother." The man asked twice more, "Then who?" and was given the same response. Only until the fourth time did the Prophet respond, "Then your father." Reward is not only given to the good and kind treatment towards mothers. In fact, Islam has designated a special reward for raising daughters that is not granted for raising sons.

The Prophet Muhammad (peace be upon him) said, "Whoever Allah has given two daughters and is kind towards them, they will be a reason for him entering Paradise."

Conclusion

Before Islam, women were considered shameful, female children were buried alive, prostitution was rampant, divorce was only in the hands of the husband, inheritance was only for the strong, and oppression was widespread. Islam came and abolished these practices. Even now, in "developed countries", women are not granted respect, dignity and honour, let alone equal pay for equal work. Islam, however, regards women as precious and valuable, not to be disrespected or disgraced. The mistreatment of women in some Middle-Eastern countries or Muslim families is due to cultural factors that some Muslims wrongly follow, not because of Islam. Why would many women around the world willingly enter Islam if it is an oppressive religion?

We end with the words of our Lord and your Lord, the Creator and Sustainer of all men and women:

"Surely the men who submit and the women who submit, and the believing men and the believing women, and the obedient men and the obedient women, and the truthful men and the truthful women, and the patient men and the patient women, and the humble men and the humble women - Allah has prepared for them forgiveness and a great reward."Qur'an 33:35

سعدی قسط 2


                                                   سعدی قسط 2 

سعدی․․․․․․تمہاری طرح ایک یتیم ․․․․جو تین برس کی عمر میں والدین کے سائے سے محروم ہو گئے تھے


Saadi Qist 2


یتیموں کی قابل رحم حالت پر
کسی یتیم کے سامنے اپنے بچے کو پیار نہ کرو کیونکہ اگر یتیم روتا ہے ․․․․․کون اس کی اشک شوئی کے لئے موجود ہے؟اگر یتیم اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو چکا ہے اسے اپنے سینے سے لگا لو اور اسے والدین کی محبت عطا کرو یاد رکھو اگر یتیم روتا ہے خدا کا تخت کانپتا ہے اگر تم اپنے بچے کو پیار کرنا چاہتے ہو پہلے یتیم کو پیار کرو۔

اے سعدی․․․․․․تمہاری طرح ایک یتیم ․․․․جو تین برس کی عمر میں والدین کے سائے سے محروم ہو گئے تھے․․․․․ہی ایک یتیم کی قابل رحم حالت کو بخوبی جانتا ہے۔
یہ پہرہ جب میں نے 30برس قبل پڑھا․․․․․اس نے مجھے میری گہرائیوں سے ہلا کر رکھ دیا․․․․اور میں ایک بچے کی مانند رویا اور میں نے یتیموں کی قابل رحم حالت اور ضرورت مندوں کی قابل رحم حالت پر غور کرنا شروع کیا اور اس طرح میں مکمل تبدیلی سے ہمکنار ہوا۔


خیر خواہی پر
ہر وقت خیر خواہی کے لئے تیار رہو کیونکہ روح کا خالق خیر خواہ ہے
طمانیت پر
طمانیت ان کا مقدر ہے جو خوش قسمت ہیں
رازوں کی حفاظت پر
انسانوں کے چھپے ہوئے عیب عیاں نہ کرو کیونکہ ان کی توہین سر انجام دیتے ہوئے تمہیں شہرت میسر نہ آئے گی کوئی بھی راز کسی دوست کے حوالے نہ کرو کیونکہ وہ کسی بھی وقت تمہارا دشمن بن سکتا ہے کسی بھی دشمن کی برائی نہ کرو کیونکہ کسی بھی دن وہ تمہارا دوست بن سکتا ہے۔

سعدی ہمیں ایک تاجر کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے ایک ہزار دینار گم ہو گئے تھے وہ اپنے بیٹے کو خبردار کرتا ہے کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائے۔
اس کا بیٹا سوال کرتا ہے کہ:۔
”کیوں؟“
تاجر نے جواب دیا کہ:۔
”اس طرح بد قسمتی دوگنی ہو جائے گی۔اول ایک ہزار دیناروں کی گمشدگی اور دوم ہمارے نقصان پر ہمارے ہمسایوں کی خوشی“
ناشکری پر
انسان اشرف المخلوقات ہے اور جانوروں میں رسوا ترین بے شک کتا ہے لیکن دانشوروں کی رائے ایک کتا اگر اپنی خوراک کے لئے شکر گزاری کا اظہار کرتا ہے․․․․وہ ایسے انسان سے بڑھ کر قابل احترام ہے جو اظہار تشکر سے عاری ہے۔

”ایک کتا روٹی کے اس ٹکڑے کو کبھی نہ بھولے گا جو اسے عطا کیا جائے گا خواہ اس کے بعد آپ اس کے سر پر سینکڑوں پتھر برسائیں“
روئے زمین پر بے وفعت ترین اشیاء درج ذیل چار اشیاء ہیں!
بنجر زمین پر بارش سورج کی روشنی میں چراغ ایک اندھے شخص کے نکاح میں دی گئی خوبصورت عورت ناشکرے کے ساتھ کی جانے والی نیکی
”اس کے مشکور رہیں جس نے آپ کے ساتھ نیکی کی ہے اور جو آپ کا مشکور ہے اس کے ساتھ نیکی کریں“
کسی کے احساسات کو مجروح نہ کریں
کسی کے زخمی اور دکھی دل کے دھوئیں سے بچو کیونکہ اندرونی زخم بالآخرتپش بن جائے گا کسی کے دل کو اس قدر دکھی نہ کرو کہ وہ اس دکھ کو برداشت نہ کر سکے ایک آہ تمام دنیا کو شعلے میں تبدیل کر سکتی ہے
مصالحت پر
ایک دوست جس کے ساتھ مصالحت کرنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہے اس سے ایک دم اجنبیت اختیار کرنا کس قدر غلط اقدام ہے
چند اشعار
برسوں کے تغیر و تبدیل کے بعد ایک پتھر ایک ہیرے میں تبدیل ہوتا ہے․․․․توجہ کریں اور اسے یک دم تباہ و برباد نہ کریں دوسرے پتھر کے ساتھ ٹکڑاتے ہوئے
دماغ کے دیوالیہ پن پر
پرانی کہاوت
”ایک بد پرندہ ایک بد انڈا ہی دیتا ہے“
سعدی اس کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں کہ:۔

”کوئی ایسا شخص جس کا ماخذ ہی بد ہے اس سے نیکی کا عکس کیسے جھلک سکتا ہے۔ہم ایک برے لو ہے سے کیسے ایک اچھی تلوار بنا سکتے ہیں؟
ایک بے وقعت شخص محض تعلیم سے ایک قابل قدر شخص نہیں بن سکتا۔
بری عادات جو کسی شخص کی فطرت میں رچ بس گئی ہوتی ہیں․․․․․وہ محض موت کی گھڑی ہی ان سے نجات حاصل کر سکتا ہے“
داستان
ایک شریف آدمی کا بیٹا بے وقوف اور غبی تھا۔
اس نے یہ کہتے ہوئے اسے ایک عالم فاضل شخص کے پاس بھیجا کہ:
”حقیقت میں آپ اس نوجوان کو ہدایت سے نوازیں گے۔وہ ایک سمجھ دار وجود بن سکتا ہے۔اس نے کچھ دیر تک کے لئے اسے اسباق سے نوازا لیکن اس نوجوان پر ان کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے اس کے باپ کو یہ کہتے ہوئے پیغام ارسال کیا کہ:۔
برخوردار دانشوری اختیار نہیں کر رہا اور اس نے مجھے بھی احمق بنا دیا ہے“
سعدی کہتے ہیں کہ:۔

”اگر خلقی/پیدائشی اہلیت اچھی ہو گی۔تب تعلیم اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے،لیکن کوئی بھی پالش کرنے والا یہ نہیں جانتا کہ ایک برے مزاج کے حامل لوہے کو کیسے پالش کرنا ہے۔ایک کتے کو سات مرتبہ کسی سمندر میں دھوئیں اور جب تک وہ گیلا ہے وہ غلیظ اور ناپاک ہے وہ مسیح علیہ السلام کے گدھے کو مکہ شریف لے گئے تھے واپسی پردہ ہنوز گدھا ہی تھا“
خاموشی کی برکتیں
”میں نے ایک دوست سے کہا کہ میں نے بولنے کی بجائے خاموش رہنے کا انتخاب کیا ہے کیونکہ کئی ایک مواقع پر اچھے اور برے الفاظ آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں لیکن دشمنوں کی آنکھیں اسی پر لگی ہوتی ہیں جو کچھ برا ہوتا ہے۔

اس نے جواب دیاکہ:۔
دشمن ہماری زیادہ خدمت سر انجام دیتا ہے جو کسی اچھائی کو نہیں دیکھتا “
مداخلت اور خلل اندازی پر
”میں نے ایک مرتبہ ایک فلسفی کو یہ کہتے سنا کہ کسی نے کبھی اپنی جہالت کا اعتراف نہیں کیا ماسوائے میری․․․․․جو اس وقت بات کا آغاز کرتا ہے جبکہ دوسرے نے اپنی بات ابھی ختم نہیں کی ہوتی“
جاہل کے ساتھ بحث مباحثے پر
سعدی بیان فرماتے ہیں کہ جاہل کے ساتھ بحث مباحثہ سر انجام دینا کیسا ہے
”ایک عالم فاضل شخص جو ایک جاہل کے ساتھ بحث مباحثے میں مشغول ہوتا ہے اسے اپنے وقار کی معاونت کی کوئی امید نہیں ہوتی اور اگر جاہل اس پر حاوی ہو جاتاہے․․․․ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ ایک پتھر ہے جو ایک ہیرے کو کچل سکتا ہے“
اگر ایک باشعور شخص کے ساتھ بے شعور شخص ناروا سلوک کرتا ہے اس پر ملال نہیں کرنا چاہیے
اگر ایک بے وقعت پتھر کا ٹکڑا سونے کے ایک کپ کو کچل سکتا ہے اس کی وقعت میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی سونے کی وقت کم ہوتی ہے خدا مہربان اور ہمدرد ہے۔
سعدی اس سلسلے میں اپنے اسٹائل میں درج ذیل شعر کہتے ہیں:۔
خدا کی فیاضی اور وقار کی جانب متوجہ ہو غلام گناہ کرتا ہے لیکن خدا شرم کھاتا ہے چونکہ وہ مہربان ہے․․․․وہ اپنی مخلوق کو معاف فرما دیتا ہے سعدی کے فلسفے کی اس کلید کے ساتھ ہم شاعر سعدی کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔دانشوری اور خوبصورتی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتی ہے․․․․یہ سعدی ہیں
جب جان جان آفریں کے حوالے کرنے لگو
بہتر ہے کہ اسے وقار کے ساتھ حوالے کرو
یہ دنیا کا خاتمہ ہے
موت کے بعد اس فرد کا نام باقی رہنا چاہیے
میں نے محض اِدھر اُدھر سے چند حکایتیں پیش کی ہیں تاکہ قارئین کرام کو سعدی کے اخلاقیات کے بارے میں روشناس کروایا جا سکے جو کہ کسی نوجوان کو یہ تحریک بخش سکتی ہیں کہ وہ ان کے کاموں کو مفصل طور پر پڑھیں بالخصوص سعدی کی گلستان․․․․بوستان․․․․اور کلیات اور زیادہ سے زیادہ طمانیت اور خوشی اخذ کریں
۔

شیخ سعدیؒ

                                         شیخ سعدیؒ 

سعدی یقینا اعلیٰ ترین ذہانتوں کے حامل افراد میں سے ایک فرد تھے


Saadi


سعدی یقینا اعلیٰ ترین ذہانتوں کے حامل افراد میں سے ایک فرد تھے۔وہ اعلیٰ فہم و فراست کے حامل تھے۔وہ انسانوں اور ان کے اطوار کا بخوبی مشاہدہ سر انجام دیتے تھے۔ان کا کام ان کی فہم و فراست کا منہ بولتا ثبوت تھا۔شیخ شرف الدین سعدی جنہیں سعدی شیرازی بھی کہا جاتا تھا(1194تا1313بعد از مسیح)․․․․․انہوں نے 12ویں صدی کے اختتام کے قریب شیراز میں جنم لیا تھا جو فارس کا مشہور دارالحکومت تھا۔
فارس کے عام دستور کے مطابق انہوں نے اپنے لئے”سعدی“ بطور تخلص منتخب کیا(شاعرانہ نام)یہ تخلص انہوں نے اپنے سرپرست اور مربی عطا بیگ سعد بن زنگی حکمران فارس کے نام پر رکھا تھا جو اپنے علاقے کے عالم فاضل لوگوں کی حوصلہ افزائی سر انجام دیتا تھا․․․․عبداللہ کا بیٹا اور ایک ”علوی“ حضرت علی ابن طالب کی اولاد میں سے تھے․․․․وہ ایک عالم فاضل صوفی تھے اور سائنس کی ہر ایک شاخ پر دسترس رکھتے تھے۔

انہوں نے عبدالفرخ ابن جوزی سے تعلیم حاصل کی تھی اور دینی تعلیم عبدالقادر جیلانی سے حاصل کی تھی اور عبدالقادر جیلانی کے ساتھ انہوں نے پہلے حج بیت اللہ کے لئے مکہ شریف کا سفر سر انجام دیا تھا اور یہ سفر انہوں نے چودہ مرتبہ سر انجام دیا تھا اور اکثر پیدل حج کی سعادت حاصل کی تھی۔نور الدین عبدالرحمن جامی جو جامی کے نام سے جانے جاتے تھے وہ فرماتے ہیں کہ:۔

”سعدی نے دور دراز کے سفر طے کیے تھے اور بہت سے عجیب و غریب ممالک دیکھے تھے“
انہوں نے اکثر پیدل حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی تھی اور ایک مرتبہ وہ ہندوستان کے مالا یار ساحل جا پہنچے تھے اور انہوں نے کشمیر کی سیاحت بھی سر انجام دی تھی۔بنارس کے ابراہیم خان اپنے صہوفی ابراہیم (Sohofi Ibrahim) میں کہتے ہیں کہ!
”سعدی کے وسیع ترسفروں/سیاحتوں کی چند ایک وجوہات یہ تھیں کہ وہ عجیب و غریب شہر اور علاقے دیکھتے تھے۔
اپنی مہمات کی تفصیل پیش کرتے تھے۔زندگی کے نشیب و فراز دیکھتے تھے۔بصیرت یافتہ لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور سائنس اور علم حاصل کرتے تھے“
جیسا کہ سعدی بوستان میں کہتے ہیں کہ:۔
”کیا یہ عالم پر سکون ہونے سے قبل اپنے مرکز سے ہلانہ تھا؟کیا سعدی نے سفر طے کرتے ہوئے سائنس اور علوم حاصل نہ کیے تھے؟“
اپنے دنیاوی تجربے کے بارے میں سعدی اپنے غیر معمولی فلسفے کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ:۔

”قسمت نے مجھے حکم صادر کیا کہ مجھے اصفہان چھوڑ دینا چاہیے میری روزی اب اس جگہ سے مزید وابستہ نہ رہی تھی۔میری قسمت مجھے عراق سے شام لے گئی اور اس مقام پر میرا عارضی قیام خوش کن تھا۔جب شام سے میرا جی اکتا گیا تب میرے دل میں دوبارہ اپنا گھر دیکھنے کی خواہش جنم لینے لگی اور مجھے امید تھی کہ واپسی کے سفر کے دوران میں عراق کے صوبے سے گزروں گا“
سعدی 166برس تک زندہ رہے
دولت شاہ کہتے ہیں کہ:۔

”سعدی کی طویل زندگی کے ابتدائی 30برس مطالعہ اور علم کا ذخیرہ کرنے میں گزرے تھے۔
اگلے 30یا غالباً 40برس وسیع تر سفر کے دوران تجربات سے دو چار ہونے میں گزرے تھے۔انہوں نے اپنی بقایا زندگی گوشہ نشینی میں گزاری تھی جبکہ وہ پرہیزگاری اور روحانی سر بلندی میں اپنی مثال آپ تھے“
اس لئے ان کا کام پختہ کار تجربے کا نچوڑ تھا۔

سعدی کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور انہوں نے کئی ایک نظمیں بہت سے ان ممالک کی زبانوں میں تحریر کی تھیں جن ممالک کا انہوں نے سفر طے کیا تھا۔
”میں نے دنیا کے مختلف علاقوں کی جہاں گردی کی ہے اور ہر جگہ میں وہاں کے مکینوں کے ساتھ گھل مل گیا تھا اور میں نے ہر ایک جگہ سے کچھ نہ کچھ حاصل کیا تھا“
گلستان سے اقتباس:۔
”انہوں نے دانش ور لقمان سے پوچھا کہ:
آپ نے آداب کہاں سے سیکھے۔

انہوں نے جواب دیا کہ!
ان لوگوں سے جو اچھے طریقوں اور ادب و آداب سے واقف نہ تھے۔
میں نے ان لوگوں میں جو چیز ناگوار پائی․․․․
میں نے اسی چیز سے بچنے کی کوشش کی “
”دوبارہ․․․․․انہوں نے بچھو سے پوچھا کہ:۔
تم سردیوں میں کیوں باہر نہیں نکلتے؟
اس نے جواب دیا کہ!
مجھے گرمیوں میں کیا عزت بخشی جاتی ہے جو میں سردیوں میں باہرنکلوں“
درج ذیل جانی پہچانی حکایت سے اچھے معاشرے کے فوائد عیاں ہوتے ہیں۔

”ایک روز میں غسل خانے میں تھا میرے ایک دوست نے میرے ہاتھ میں مٹی کا ایک ٹکڑا تھمایا جو خوشبو سے مہک رہا تھا۔
میں نے اسے تھام لیا اور کہا کہ:۔
کیا تم مشک ہو یا عنبر ہو کیونکہ مجھے تمہاری خوشبو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔
اس نے جواب دیا کہ:۔
میں ایک ادنیٰ سا مٹی کا ٹکڑا ہوں لیکن میں کچھ دیر تک گلاب کے پھول کی محبت میں رہا ہو․․․․․میرے ساتھی کی میٹھی میٹھی اور بھینی بھینی خوشبو مجھ میں بھی رچ بس گئی ہے وگرنہ میں محض مٹی کا ایک ٹکڑا تھا جیسا کہ میں دکھائی دیتا ہوں“
سعدی کے اسٹائل کی عظیم ترین خوبصورتی اس کی خوشنما سادگی ہے ان کا تخیل مدبرانہ ہے اور ان کے کاموں میں مفید اور شریفانہ جذبے پائے ہیں اوسلے ان کے بارے میں کہتا ہے کہ!
”فارس کا چمکدار ترین زیور․․․․․نیکی اور پارسائی کا حامل․․․․فہم و فراست کا حامل اور عالم فاضل“
ان کی گلستان چین کے وسط اور افریقہ کی انتہائی سرحدوں تک انتہائی توجہ سے پڑھی جاتی ہے اور اس کی تعریف سر انجام دی جاتی ہے۔
مغربی مفکرین بھی ان کے اسٹائل کی تازگی کو سراہتے ہیں اور ان کی زبان کی چمک دمک کی تعریف کرتے ہیں۔جامی انہیں شیراز کی بلبل کہہ کر مخاطب کرتاہے۔
سعدی کے فلسفے سے درج ذیل حکایت قابل غور ہے:۔
”انہوں نے کہا کہ:۔
میں کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لایا تھا لیکن ایک مرتبہ جبکہ میں ننگے پاؤں تھا اور میرے پاس جوتے خریدنے کے لئے پیسے نہ تھے لیکن میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کے پاؤں ہی نہ تھے اور میں اپنے مقدر سے مطمئن ہو گیا“
گلستان یا گلاب کا باغ اور بوستان یا میوے کا باغ
گلستان حکایات کا مجموعہ ہے جن کا تعلق ان کے مشاہدے اور تجربے کے ذخیرے سے ہے۔
سعدی کی مقبولیت کا راز ان کی فراخ دلی اور بے تعصبی ہے۔ان کی تحریریں مشرق کا عالم اصغر ہیں۔اگر چہ سعدی نے اپنی گلستان تقریباً نو صد برس قبل تحریر کی تھی لیکن ان کی مہلک آج بھی تازہ ہے۔
جامی کہتے ہیں کہ:۔
”فہم و فراست کے حامل لوگ سعدی کے شاعرانہ کلام کو شاعروں کا ”نمک دان“کہتے ہیں۔“
جب اختیارات ایسے شخص کے ہاتھوں میں آتے ہیں
جو درست راستے سے بھٹک چکا ہوتا ہے
وہ اسے اعلیٰ عہدہ تصور کرتا ہے(لیکن حقیقت میں)
وہ ایک گڑھے میں گر چکا ہوتاہے۔

(سعدی)
ایک اور شعر میں سعدی کہتے ہیں کہ:۔
”لوگوں کی رسوائی کا باعث ان کے حکمرانوں کی بدعنوانی بنتی ہے“
وہ لوگ جو حکومت میں ہیں اور حکمرانی کے ساتھ چمٹا رہنا چاہتے ہیں سعدی ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ:۔
سلطنت اور عہدے پر اعتبار نہ کرو
کیونکہ وہ تم سے پہلے بھی موجود تھے․․․․اور
تمہارے بعد بھی موجود رہیں گے۔
(سعدی)
میں اب درج ذیل میں سعدی کی چند حکایات اور اقوال گلستان اور بوستان پیش کرتا ہوں جو قارئین کرام میں دلچسپی اجاگر کرنے کا باعث ثابت ہوں گے کہ وہ اس عظیم دانش ور کی زندگی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں۔