Monday 1 June 2020

        علامہ اقبال           
نے تقریبا 80 سال پہلے لکھی  تھی یہ    
باتیں کتنی سچ ہیں                      
کل مذہب پوچھ کر بخش دی تھی جان میری آج فرقہ پوچھ کر اس نے ہی لے لی جان میری

مت کرو رفع یدین پر اتنی بحث مسلمانو
نماز تو ان کی بھی ہوجاتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے

تم ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑ نے پر بحث میں لگے رہو
اور دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی شازش میں لگے ہیں

زندگی کے فریب میں ہم نے ہزاروں سجدے 
قضا کر ڈالے

ہمارے جنّت کے سردار نے تو تیروں کی 
 برسات میں بھی نماز قضا نہیں کی

سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے
خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے

لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے
ایسا لگتا ہے کوئ قرض لیا ہو رب سے

تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں
تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے

کوئ جنّت کا طالب ہے تو کوئ غم سے پریشان ہے
ضرورت سجدہ کرواتی ہے عبادت کون کرتا ہے

کیا ہوا تیرے ماتھے پر ہے تو سجدے کا نشاں
کوئ ایسا سجدہ بھی کر جو چھوڑ جاۓ زمیں پر نشاں

پھر آج حق کیلٸے جاں فدا کرے کوئ
وفا بھی جھوم اٹھے یوں وفا کرے کوئ

نماز چودہ سو سالوں سے انتظار میں ہے
کہ مجھے صحابہ کی طرح ادا کرے کوئ

اک خدا ہی تو ہے جو سجدوں میں مان جاتا ہے
ورنہ یہ انسان تو جان لے کر بھی راضی نہیں ہوتا

دے دی اذاں مسجدوں میں حی الصلوہ حی الفلاح
اور لکھدیا باہر تخت پر اندر نہ آۓ فلاں اور فلاں

خوف ہوتا ہے شیطان کو بھی آج کے مسلمان کو دیکھ کر
نماز بھی پڑھتا ہے تو مسجد کا نام دیکھ کر

مسلمانوں کے ہر فرقے نے ایک دوسرے کو کافر کہا…..
اک کافر ہی ہے جو اس نے ہم سب کو مسلمان کہا....             
.............................................................................................

No comments:

Post a Comment