Monday 14 September 2020

قبلہ اول مسجد اقصی، برکات خداوندی کا مرکز

 

          قبلہ اول مسجد اقصی، برکات خداوندی کا مرکز 

مسجد اقصی القدس شریف کو مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت حاصل ہے۔قرآن مجید ، احادیث نبوی ﷺ، اہلبیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اقوال کی روشنی میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہے۔ ترجمہ:(سورہ بنی اسرائیل ۱)


Qibla Awal Masjid e Aqsa Barkaat e Khudawandi Ka Markaz

آغاسید حامد علی شاہ موسوی:
مسجد اقصی القدس شریف کو مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت حاصل ہے۔قرآن مجید ، احادیث نبوی ﷺ، اہلبیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اقوال کی روشنی میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔قرآن حکیم میں ارشاد رب العزت ہے۔ ترجمہ:(سورہ بنی اسرائیل ۱)
وہ (ذات) پاک ہے جو لے گئی ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام (یعنی خانہ کعبہ) سے مسجدِ اقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔
اس آیة مجیدہ میں نبی کریمﷺ کے واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے بیت المقدس کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس کے گرد اللہ نے برکتیں رکھی ہیں وہ زمین کس قدر عظمت و رفعت کی مالک ہے۔

اسکی خیرات وبرکات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جتنے انبیاء کرام کا مولد ومدفن ہونے کا شرف و اعزاز اس سر زمین کو حاصل ہوا ہے۔ وہ پوری روئے زمین پر اس کے سوا اور کسی بھی قطعہ ارضی کو حاصل نہیں۔


پہلی صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے بیت المقدس کو ایلیا کا نام دیا تھا۔
حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا (مکہ کی) مسجد حرام میں نے عرض کیا پھر کون سی؟ آپ ﷺنے فرمایا (بیت المقدس کی) مسجداقصی، (صحیح بخاری )
خانہ کعبہ کو روئے زمین پر خدا کے پہلے گھر ہونے کا شرف حاصل ہے جبکہ بیت المقدس اس کے ۳۱ سو برس بعد حضرت سلیمان کے ہاتھوں تعمیر ہوا۔
جسے بیت الحرم سے 40منزل دور کہا گیا۔نبی کریمﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: دنیا میں چار جنتی قصر پائے جاتے ہیں جن میں ایک بیت المقدس بھی ہے۔
(سفینةالبحار)
روایات میں ہے تابوت سکینہ، تورات و انجیل کا اصلی نسخہ ، انبیائے کرام کے مقدسات امام مہدی علیہ السلام کے ذریعے اپنے اصلی مقام سے بیت المقدس تک منتقل ہوں گے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ "دریائے طبریہ سے مقدّس صندوق اس امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں سے ظاہر ہو گا اور اسے امام مہدی علیہ السلام کے سامنے بیت المقدس میں رکھا جائے گا"۔
(الملاحم و الفتن )۔
لیکن آج یہ امر مسلمانوں کیلئے باعث شرم ہے کہ ان کا قبلہ اول اوروہ زمین جو برکتوں کا خزانہ تھی آج مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے۔پہلے دوسری جنگ عظیم کے بعد 1948میں مسلمانوں کے سینے میں خنجر کی طرح اسرائیل کو پیوست کردیا گیا،پھر عربوں کی نااہلی کی وجہ سے اسرائیل نے ان کو 1967کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں عبرتناک شکست سے دوچار کردیا۔
فلسطین کو آزادی تو کیا ملتی سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر کے مشرقی یروشلم بیت المقدس کا علاقہ بھی اسرائیل کے قبضے میں لے لیا گیا۔ اس کے بعد صورتحال یہاں تک آن پہنچی کہ 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔
محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا۔اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ماہ بعد25 ستمبر 1969کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں لایاگیا۔لیکن یہ ادارہ جو القدس کی آزادی اور امت مسلمہ کے اتحاد کی خاطر وجود میں آیا تھا آج ایک دفتر میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔
آج فلسطین کا مسئلہ عالم اسلام کا مسئلہ ہی نظر نہیں آتا۔آج بھی مسلمانوں کا قبلہ اول پکار پکار کر مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑ رہا ہے
قبضہ مشرک سے آکر کوئی دلوائے نجات قبلہ اول کا اک مدت سے یہ ارمان ہے
لیکن افسوس کہ مسلم حکمرانوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔اقتدارکا دوام اور بادشاہتوں کی حفاظت ان کا پہلی و آخری ترجیح ہے۔القدس کی آزادی کیلئے جو رسمی آواز پہلے اٹھا کرتی تھی آج وہ رسم بھی ختم ہو چکی ہے۔
اس وقت صیہونی و استعماری سازشوں کے طفیل اور عرب حکمرانوں کی مفاد پرستی و تنگ نظری کی وجہ سے جو حالات پید اہوئے ہیں اس سے فلسطین کی آزادی اور القدس کی بازیابی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔خود مسلم ریاستوں میں مقامات مقدسہ کا جو حشر کیا جارہا ہے اس سے اسرائیل پر موجود عالمی برادری کااخلاقی دباؤ بھی ختم ہو گیا ہے۔سرزمین حجاز پر صرف5فیصد اسلامی آثار باقی رہ گئے ہیں۔
آج امت مسلمہ کی یہ حالت ہے کہ ہرمسلم ملک دوسرے میں مداخلت کررہا ہے شام عراق یمن لیبیامصر اس کی بدترین مثال ہیں۔جب تک مسلمان خود اپنے اعمال درست نہیں کریں گے یہودو ہنود امریکہ اسرائیل برطانیہ کے خلا ف ان کی آواز پر کون کان نہیں دھرے گا۔
ماہ رمضان کی مقدس ساعتوں میں یوم القدس حمایت مظلومین منانے کا مقصد عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنااور مسلم حکمرانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے تاکہ مسلمانوں کے سینے پر لگے گھاؤ کا علاج کیا جاسکے۔
اور دنیا بھر کے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی جاسکے۔ اسرائیل اب کھلم کھلا بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دے رہا ہے اور استعماریت کا سرغنہ امریکہ بھی اپنا سفارتخانہ مشرقی یروشلم میں منتقل کرنے کا عندیہ دے چکا ہے جوعالمی قوانین اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی پامالی اور صیہونیت کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔مسلم حکمران یہ مت بھولیں کہ بیت المقدس کو فراموش کرنا اپنی تاریخ عزت غیرت و حمیت کو فراموش کرنا ہے۔

پورے عالم اسلام کو یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ بیت االمقدس کی بازیابی کیلئے اپنی آواز میں اثر پیدا کرنے کیلئے امت مسلمہ کو مسلم ممالک میں اسلامی آثار مقدسہ کی حرمت کو بحال کرنا ہوگا۔استعماری قوتوں اور اسلام دشمنوں کی دخل اندازیوں کے خلاف ا حتجاج اسی وقت کارگر ہوگا جب وہ ایک دوسرے کے ممالک میں مداخلت بند کریں گے اور محکوم و غریب مسلم ملکوں کیلئے مل کر مشترکہ کوششیں کریں گے۔ اس کے بغیر کشمیر فلسطین کی آزادی اور القدس کی بازیابی ناممکن ہے۔کیونکہ اتحاد و یکجہتی ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے مسلمانان عالم قبلہ اول کو یہود کے پنجہ سے چھڑا سکتے ہیں

خوداری اور عزت نفس ایک قیمتی چیز ہے

 

           خوداری اور عزت نفس ایک قیمتی چیز ہے 

حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ کا برطرف وزیر درویشوں کی محفل میںآ کر بیٹھ گیا اور ان درویشوں کی صحبت نے اس پر کچھ ایسا رنگ چڑھایا کہ وہ اپنی اس حالت پر مطمئن ہوگیا۔


Khuddari Aur Izzat e Nafs Aik Qeemti Cheez Hai

حکایاتِ سعدی:
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بادشاہ کا برطرف وزیر درویشوں کی محفل میںآ کر بیٹھ گیا اور ان درویشوں کی صحبت نے اس پر کچھ ایسا رنگ چڑھایا کہ وہ اپنی اس حالت پر مطمئن ہوگیا۔
بادشاہ کا غصہ جب ختم ہوا تو اس نے اس وزیر کو طلب کیا اور اسے دوبارہ منصب وزارت پر فائز ہونے کا کہا۔
اس وزیر نے وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا مجھے تیری حکومت میں مشغول ہونے سے بہتر اپنی معزولی لگتی ہے۔گوشہ نشینوں نے خود پر کتے کے دانت اور انسانوں کے منہ بندکردئیے‘کاغذ پھاڑ دئیے‘قلم توڑدئیے اور اعتراض کرنے والوں کے ہاتھ اور زبان سے بچ گئے۔
بادشاہ نے کہا کہ مجھے ایک عقل مند وزیر کی ضرورت ہے جو تو ہے اور تو ہی امورِمملکت میں تدبیر سے کام لینے والا ہے۔


اس معزول وزیر نے جواب دیا کہ عقل مند وہی ہے جو ان کاموں میں مبتلا نہ ہو۔ہما تمام پرندوں سے اس وجہ سے بہتر ہے کہ ہڈیوں پر گزارہ کر لیتا ہے لیکن کسی دوسرے پرندے کو تنگ نہیں کرتا۔
مقصود بیان۔
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ خوداری اور عزت نفس ایک قیمتی چیز ہے اس کی حفاظت کرنی چاہئے اور کسی بھی طرح اپنی عزت پر حرف نہیں آنے دینا چاہئے۔
دنیا میں اس طرح رہنا چاہئے کہ تمہاری ذات دوسروں کے لئے نفع کا باعث ہو نہ کہ تمہاری وجہ سے انہیں نقصان پہنچے ۔داناؤں کا قول ہے کہ انسان کی عزت خود اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔اگر انسان نیک عمال اختیار کرے اور دوسروں کی بھلائی کا طلبگار ہو تو ہر کوئی اس کی عزت کرتا ہے اور اگر اس ذات سے کسی کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ ان کے لئے ضرر کا باعث ہو تو وہ اس کی تذلیل کرتے ہیں۔

اسلام میں پڑوسی کے حقوق اور معاشرہ پر اسکے اثرات

 

         اسلام میں پڑوسی کے حقوق اور معاشرہ پر اسکے اثرات 

دین اسلام میں ہر تعلق، رشتے اور انسان سے وابستہ ہر فرد کی اہمیت، احترام اور مقام کی بہت وضاحت کے ساتھ تفصیل بیان کی گئی ہے، بلاشبہ دین اسلام وہ دین ہے کہ جس میں غیر مسلموں کو بھی ان کے بنیادی حقوق سے سرفراز کیا گیا، یہ وہ آفاقی مذہب ہے کہ جس میں گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ غلام اور لونڈی کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا اور۔۔۔


Islam Main Parosi K Haqooq Aur Muashray Per Iskay Asraat

دین اسلام میں ہر تعلق، رشتے اور انسان سے وابستہ ہر فرد کی اہمیت، احترام اور مقام کی بہت وضاحت کے ساتھ تفصیل بیان کی گئی ہے، بلاشبہ دین اسلام وہ دین ہے کہ جس میں غیر مسلموں کو بھی ان کے بنیادی حقوق سے سرفراز کیا گیا، یہ وہ آفاقی مذہب ہے کہ جس میں گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ غلام اور لونڈی کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا اور یہ ہی وہ دین حق ہے کہ جس میں جانوروں تک کے بنیادی حقوق بڑی ہی وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔
اسلام میں جہاں رشتہ داری کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہیں رشتہ داروں کے علاوہ ان افراد کی جن کے ساتھ کوئی بھی مومن میل جول رکھتا ہے ، ان کے حقوق کا بیان موجود ہے۔ بلکہ ہمسایہ کی اہمیت تو اس کے غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمہ ہے۔

اس حوالہ سے ہمسایوں کو 3درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے،پہلا وہ جو غیر مسلم ہو اس کا حق ایک درجہ ہے دوسراجو مسلمان ہو مگر رشتہ دار نہ ہو اس کا حق دو درجے ہے یعنی وہ پڑوسی بھی ہے اور مومن بھی اسی طرح تیسرا وہ جو ہمسایہ بھی ہے رشتہ دار ہے اور مومن بھی، تو اسلام میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے تاکہ ایک مستحسن معاشرہ قائم ہوسکے۔


قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ” اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے، اور پہلو کے ساتھی سے، اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا“ سورة النساء، آیت 36،اس آیت مبارکہ میں قرابت دار پڑوسی کے حوالہ سے استعمال ہوا ہے، جس کے معنی ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو، مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن و سلوک کیا جائے رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار احادیث مبارکہ میں بھی اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے، یہاں پہلو کے ساتھی سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص ہے جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت و ہم نشینی اختیار کرے بلکہ اسکی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم یا کوئی کام سیکھنے کے لئے یا کسی کاروباری سلسلہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے، راہ کے مسافر میں گھر، دکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں۔

سورة النساء کی اس آیت مبارکہ میں تین قسم کے ہمسایوں کا ذکر آیا ہے، ایک وہ جو ہمسائے بھی ہوں اور رشتہ دار بھی ہوں، دوسرے وہ جو تمہارے پہلو میں یا تمہارے مکان کے پاس تو رہتے ہوں مگر تمہارے رشتہ دار نہ ہوں، تیسرے وہ جو تمہاری سوسائٹی سے متعلق ہوں مثلاً وہ دوست احباب جو ایک جگہ مل بیٹھتے ہوں یا کسی دفتر میں یا دوسری جگہ اکٹھے کام کرتے ہوں اور اکثر میل ملاقات رہتی ہو، حسن سلوک تو ان سب سے کرنا چاہیے، تاہم اسی ترتیب سے ان کا خیال ضرور رکھا جائے، سب سے زیادہ حقدار رشتہ دار ہمسائے ہیں، پھر ان کے بعد اپنے گھر کے آس پاس رہنے والے ہمسائے، اور ایک روایت کے مطابق ایسے ہمسایوں کی حد چالیس گھروں تک ہے پھر ان کے بعد ان ہمسایوں کی باری آتی ہے جو اپنے ہم نشین، ہم جماعت یا ساتھ کام کرنے والے ہوں۔

اسلام نے مختلف وسعت پذیر دائروں میں مسلم معاشرے کی زندگی منظم کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دی ہے تا کہ پورا معاشرہ منظم ہو جائے، اس سلسلے میں والدین اور رشتہ داروں کے حقوق سے شروع ہو کر یہ سلسلہ پڑوسیوں ، دوستوں اور آشناؤں سے ہوتا ہوا غریبوں اور غیر مسلموں تک جاتا ہے،اہل علم کہتے ہیں کہ پڑوس کے دائرے کو جس قدر ممکن ہو وسعت دی جائے۔
مگر اسلامی تعلیمات اور احکامات الٰہی بارے ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں“ین اسلام میں ایک جانب یہ بتایا جارہا ہے کہ جو پڑوسی کاخیال نہ رکھے تو اللہ پاک اس سے ناراض ہوجائے گا، یہ بھی کہ جو اپنے ہمسائے کو ستائے وہ مومن ہی نہیں تو ایک جانب یہ بھی وضاحت کی جارہی ہے کہ ایسے شخص کی عبادات بھی قبول نہیں اور وہ جہنم میں جائے گا، اس سلسلہ میں ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ” ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ فلاں عورت کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ کرنے میں مشہور ہے لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو ستاتی ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا وہ جہنمی ہے پھر اس نے کہا یا رسول اللہ فلاں عورت نماز، روزہ، اور صدقہ کی کمی میں مشہور ہے وہ صرف پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کرتی ہے۔

حقوق ہمسائیگی کا اسلام میں اس قدر بیان ہے کہ ایسا محسوس ہونے لگا گویا کہ پڑوسی آپ کے گھر یا خاندان کا ہی ایک شخص ہو ، اس بارے میں ایک حدیث مبارکہ میں بیان ہے ” ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضری کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلا وہاں پہنچا تو دیکھا کہ نبی کریم ﷺ
کھڑے ہیں اور نبی کریم ﷺکے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے جس کا چہرہ نبی کریم کی طرف ہے میں سمجھا کہ شاید یہ دونوں کوئی ضروری بات کر رہے ہیں بخدا! نبی کریم ﷺاتنی دیر کھڑے رہے کہ مجھے نبی کریم ﷺپر ترس آنے لگا جب وہ آدمی چلا گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! یہ آدمی آپ کو اتنی دیر لے کر کھڑا رہا کہ مجھے آپ پر ترس آنے لگا نبی کریم ﷺنے فرمایا کیا تم نے اسے دیکھا تھا ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! نبی کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو مجھے مسلسل پڑوسی کے متعلق وصیت کر رہے تھے حتیٰ کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ وہ اسے وراثت میں بھی حصہ دار قرار دے دیں گے پھر فرمایا اگر تم انہیں سلام کرتے تو وہ تمہیں جواب ضرور دیتے۔
“ (مسند احمد)پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہم نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ! پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ تو آپ ﷺنے فرمایا : اگر وہ تجھ سے قرض مانگے تو اسے قرض دے ، اگر تجھ سے مدد مانگے تو اسے مدد مہیا کر ، اگر ضرورت مند ہو تو اسے عطا کر ، اگر بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کر ، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے پیچھے جا ، اگر اسے کوئی خیر پہنچے تو تجھے خوشی ہو۔

Tuesday 8 September 2020

حضرت حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

         حضرت حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا 

آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجا تھا


Hazrat Aisha Sadiqa R.A

اُم ِمفازا:
ام المومنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہاکا نسب چوتھی پشت (قصی ) پر جاکر حضور سیدنا رسول کریم ﷺکے نسب سے مل جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہابلاشبہ پاکیزہ طیبہ ،طاہرہ باعظمت اور باوقار خاتون تھیں۔ قصی کی نسل سے آپ کے عقد میں آنے کا شرف صرف اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا اور اام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان کے حصے میں آیا ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کا نسب نامہ یوں ہے۔خدیجہ بنت خویلد بن امسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ کعب بن لوی بن غالب بن فھر الاسدیہ القریشہ۔امّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہاکی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن الاصم (جندب ) بن ھرِم (ھدمِ)بن رواحہ بن حجر بن عبدبن مصیص بن عامر لوی بن غالب بن فھر العامریہ القریشہ تھیں ۔

اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا عفت و حمیت و طہارت کا پیکر تھیں ۔ اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہاکی پاکیزہ سیرت کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں بھی انہیں ”طاہرہ “ لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ انہیں ،،،،،،،،،،،،،،سربراہ خواتین قریش بھی کہا جاتا تھا ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت مکہ مکرمہ کے بہت عالی مرتبت گھرانے میں ہوئی ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہاکے بھتیجے حکیم بن حزام بن خویلد بیان فرماتے تھے اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ ُالکُبری رضی اللہ عنہا مجھ سے دو سال بڑی تھیں ۔ وہ اصحاب فیل کے واقع سے پندہ برس پہلے 556 میں پیدا ہوئیں۔
پیارے آقا سے نکاح سے قبل اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہاکی دو شادیاں ہوچکی تھیں ۔
پہلا نکاح عتیق بن عابد سے ہوا ، ان سے ایک بیٹی تھیں ۔ اس کا نام ہند اور کنیت اُم محمد تھیں ۔ دوسرا نکاح ابو ہالہ بن زرارة بن نباش اُسیدی (اسدی ) تمیی سے ہوا۔ ان سے چار بیٹے تھے ۔ یہ سب کے سب سعادت مند اور سب کے سب شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ ان کا مختصر تعارف یہ ہے ۔ ہندو بن انی ہالہرضی اللہ عنہ۔انہوں معرکہ بد ر میں بہادری کے جوہر دکھائے ۔
آپ جنگ احد میں بھی شریک ہوئے ۔ 36ہجری میں جب واقع جمل پیش آیا تو امیر المومنین حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے داد ِ شجاعت دیتے ہوئے ۔ جام شہادت نوش کیا ۔ آپ سے چند حدیث مبارکہ بھی مرسی ہیں۔ہالہ بن ابی ہالہ ،حضور سید کائنات رسول اللہ ﷺ ان سے بھی بڑی محبت فرماتے تھے ،ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ آرام فرمارہے تھے کہ ہالہ اگئے آپ ﷺ کی آنکھ مبارک کھلی تو فوراََ آپ کو سینہ مبارک کے ساتھ لگالیا اور بڑی محبت سے تواتر کے ساتھ فرمایا ہالہ! ہالہ! ہالہ ! حضرت حارثرضی اللہ عنہ اپنے اسلام کا کھلم کھلا اِظہار فرماتے تھے ۔
جب آپ نے اسلام قبول کرلیا تو رکن ایمانی تو رُکن ایمانی کے قریب دعوت و تبلیغ فرمارہے تھے کفار مشرکین نے آپ کو شہید کردیا ،بعض روایات مین آتا ہے کہ حضور سیدنا سرکار کائنات رسول ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔ وہ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے والی صحابی تھے۔طاہر بن ابی ہالہ یہ بھی اسلام کے دلدِادہ تھے حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کو چند صحابیوں کے ہمراہ یمن کے علاقے میں زکوة کی وصولہ کے لیے عامل بنا کر روانہ فرمایا ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کو جب حضور ﷺ کی صدق گفتار حسن کردار امانت داری اور حسن اخلاق کی خبر معلوم ہوئی تو انہوں نے آپ کی خدمت اقداس میں پیغام بھیجا آپ ﷺ ان کے غلام میسرہ کے ہمریہ مال تجارت لے کر ملک شام جائیں ۔ رسولﷺ نے اس پیشکش کو قبول فرمایا ، جب آپﷺ شام کی حدود میں داخل ہوئے تو ایک روز ا ٓپ ﷺ ایک درخت کے نیچے سایہ میں جلوہ افروز تھے۔
قریب میں ایک راہب نے دیکھا اور میسرہ سے پوچھا یہ شخص کون ہے میسرہ نے کہنا یہ قبیلہ قریش کہ ایک معزز شخص اور اہل حرم سے ہیں ۔ راہب نے کہا اس درخت کے نہچے پیغمبر کے سوا کوئی نہیں بیٹھتا ۔سفرِ شام سے واپسی پر اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا میسرہ سے سفر کے حالات معلوم فرمائے ۔میسرہ نے آپﷺ کی امانت ،صداقت شرافت ، نرم گفتگاری کی تعریف کی اور رسول ﷺ کے ساتھ پیش آنے والے تمام حال اور راحب کی گفتگو اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کی گوش گزاری۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہانے فوراََ ایک عورت کو رسول کریم ﷺ کی خدمت اقداس میں بھئجا تاکہ نکاح کی بابت آپﷺ کی مرضی معلوم کی جاسکے۔ جب یہ پیغام نبی کریم ﷺ میں پہنچا تو آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کی والدہ خویلد کے پاس آئے اور نکاح کا پیغام دیا ۔
آپ کے والد نے نکاح کے اس پیغام کو قبول کرلیا ۔تقریب نکاح کے لیے رسول ﷺ اپنے چچا صاحبان کے ساتھ تشریف لائے ۔ حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے ایک گائے ذبح کی ہوئی تھی اور اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ ُالکُبری رضی اللہ عنہا نے عمدہ پوشاک زیب تن فرما رکھی تھی۔بوقت نکاح کریم آقاﷺ کی عمر مبارک پچیس برس اور اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک چالیس سال تھیں ۔
خطبہ نکاح آپ ﷺ سے چچا ابع طالب رضی اللہ عنہ نے پڑھا ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے۔ ”سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں سیدنا ابرہیم کی کھیتی سے سیدنا اسماعیل کی نسل سے معد کی اصل سے اور اُصل اور مفُر کے نسب سے پیدا فرمایا۔ ہمیں بیت اللہ شریف کا پاسبان حرم شریف کا رکھوالا اور منتظم بنایا۔ ہمارے لئے ایسا گھر بنایا جس کا حج کیا جاتا ہے ۔
ہمیں ایسے حرم سے نوازا جو امن کا گہوارا ہے ۔ہمیں لوگوں پر حکمران بنایا جس شہر میں رہتے ہیں اِسے برکات سے نوازا ۔حمد الہی کے بعد میرے بھتیجے محمد ﷺ مصطفی بن عبداللہ شرف وقار اعلی فرضی اور فضیلت و دانائی کا قریش کے کسی بھی آدمی کے ساتھ موازنی نہ کیا جائے تو محمد ﷺ کا پلڑا ہی بھاری نکلے گا ۔اگر ان کے پاس مال کم ہے تو یہ آنے جانی والی چیز ہے۔
یہ مال ڈھلتی چھاؤں ہے ۔ محمد ﷺ وہی عظیم ہستی ہے جن کی قرابت داری سے تم سب بخوبی اگاہ ہوں ۔ بلاشبہ آپﷺ اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا خولید کی خواستگاری فرماتے ہیں ۔ جو حق مہر تم لوگوں نے طلب کیا وہ میرے مال سے فی الفور ادا کیا ھائے گا۔ اللہ کی قسم محمد ﷺ بہت شان کے حامل ہوگے اور ان کی خبر ہر سو پھیل جائے گی۔
روایات کے مطابق اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کا حق مہر ساڑھے بارہ اَ ہ قیمہ تھا اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہے۔ گویا پانچ سو درہم ہوئے۔جب حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ خطبہ مکمل فرمالیا تو ورقہ بن نوفل جو اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے ، نے بھی خطبہ پڑھا جس کا مضمون یہ ہے۔
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ویسا ہی بنایا جیسا آپ نے بیان کیاہے۔ہمیں ان چیزوں کے ذریعے سے فضیلت بخشی جنہیں آپ نے شمار کیا ہے۔ پس ہم عرب کر سردار اور قائد ہیں ۔ تم سب بھی ان تمام تعریفوں کے اہل اور جامع ہوں ۔ عرب تمہاری فضیلت کا انکار نہیں کرسکتے ۔ تمہارے خاندانی شرف ووقار کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ لہذا قریش کی جماعتوں گواہ رہومیں اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا بنت خو یلد کا نکاح محمد ﷺسے کیا ہے۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ ُالکُبری رضی اللہ عنہاکا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں انہوں اپنا مال دین اسلام کی راہ میں خرچ کیا ۔ آپ کی احسن خدمات کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی نے حضرت جبرائیل کے ذریعے سے انہیں سلام بھیجا اور انہیں جنت میں یاقوت سے جڑے موتیوں سے بنے ہوئے ایک بے مثل محل کی بشارت عطا فرمائی ۔ خود حضرت جبرائیل نے بھی انہیں سلام پیش کیا ، یہ سلام رسول اللہ ﷺ نے اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کو پہچایا۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا نے اس سلام کے جواب میں فرمایا یقینا اللہ خود ( سلامتی دینے والا) ہے اور حضرت جبرائیل پر سلامتی ہوں ۔ اور ائے اللہ کے رسول آپ ﷺ پر سلامتی اللہ کی رحمتیں اور برکات ہوں۔اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک غلام بطور ہدیہ پیش کیا ۔
اس غلام کو تاریخ اسلام میں زید بن حارث ہرضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت زید نن حارثہ رضی اللہ عنہ نہایت سمجھدار وفا شعار مودب اور خدمت گزار تھے۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت اقداس میں آئے تو آپﷺ کے ہی ہو کر رہ گئے۔ انہیں آپﷺ سے اتنی محبت تھی کہ وہ آپﷺ کے سایہ عاظت کے مقابلے میں اپنے عزیز ترین خونی رشتوں کو بھی ناقابل ترجیح سمجھتے تھے۔
ان کو حضورﷺ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا ۔آپ ﷺ کے چچا ابو طالب رضی اللہ عنہ کا خاندان بت بڑا تھا ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفررضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا ۔علی مرتضی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ اور اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ کے سایہ عاظت میں رہے۔اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے عزیزوں اور قرابت داروں سے حسن سلوک سے پیش آتی تھیں ۔
رسول اللہ ﷺ کی بعث سے رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ ملنے کے لیے آئیں تو اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ ُالکُبری رضی اللہ عنہ نے انہیں چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مرحمت فرمایا اور بہت احترام سے رخصت کیا۔رسول اللہ ﷺ کی عمر چالیس سال ہوئی تو وحی کا ظہور ہوا ایک دن آپ ﷺ غار حرا میں تھے کہ اچانک جبرئیل نے اکے آپ ﷺ سے کہا ”پڑھو“ آپ ﷺ نے فرمایا میں پڑھنے والا نہین ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے فرشتے نے پکڑ کر خوب بھینچا اور پڑھو۔ میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں فرشتے نے دوبارہ پکڑلیا اور بھینچا اور کہا ”پڑھو“ میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں “ تیسری بار خوب پکڑ کر کہا پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھرئے سے پیدا کیا پڑھو اور تمہارا رب تو نہایت کریم ہے ۔رسول اللہ ﷺ یہ آیات مبارکہ لے کر اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ کے پاس پہچے اور فرمایا مجھے چادر اوڑھادو ،مجھے چادر اوڑھادو“ انہوں نے آپ ﷺ کو چادر اوڑھادی ۔
یہاں تک آپ ﷺ کی حالت بہتر ہوئی آپ ﷺ نے اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ کو سارا ماجری سنایا۔ تو انہوں نے آپﷺ کو تسلی دی اور فرمایا اللہ کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسواہ نہ کرے گا۔ بے شک آپ ﷺ صلہ رحمی فرماتے ہیں ۔ درماندوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں ۔ فقیروں محتاجوں کو کما کر دیتے ہین مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں پیس آنے والے مصائب میں مدد کرتے ہیں ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے اخلاق حمیدہ اور صفات چنیدہ کے حوالے سے آپ ﷺ کو تسلی دی۔ مزید تسلی کے لیے وہ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لئے گئیں ۔ ورقہ بن نوفل عبرانی زبان لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔ اور حسب توفیق انجیل بھی لکھتے تھے۔وہ اس وقت کافی بوڑھے تھے اور بینائی بھی کھوچکے تھے ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ نے ورقہ بن نوفل سے سارا واقعہ بیان کیا تو وہ کہنے لگے یہ تو وہی ناموس فرشتہ ہے جسے اللہ نے حضرت موسی رضی اللہ عنہ پر نازل فرمایا تھا۔ پھر ورقہ بن نوفل کہنے لگے ۔ کاش میں آپ کے زمانہ نبوت میں جوان اور توانا ہوتا کاش میں اُس وقت زندہ رہوں جب آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میری قوم مجھے نکال دیں گی ؟ ورقہ بن نوفل کہنے لگے جی ہاں۔
جب کوئی بندہ اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپﷺ لائے ہے تو اس سے دشمنی ہی کی گئی۔ اگرمجھے آپ ﷺ کا زمانہ نصیب ہوا تو میں آپﷺ کی بھرپور مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ بن نوفل جلد ہی وفات پاگئے اور وحی کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا۔یہ اعزاز بھی اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہکو حاصل ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ آپﷺ پر ایمان لائیں ۔
جب لوگ آپ ﷺ کو جھٹلاتے اور ایذا اور تکلیفیں دیتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ آپﷺ کا غم ہلکا کر دتیں اور ہمت حوصلہ بڑھاتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رفاقت کے چوبیس سال گزارنے کے بعد اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ بعث دسویں سال ہجرت مدینہ منورہ سے تین سال پہلے چونسٹھ سال اور چھ ماہ کی عمر میں اس دینائے خاقی کو خیر باد کہہ گئیں ۔
انہیں مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان ججنت العلمی میں دفن کیا گیا۔ ان کی تدفین کے وقت حضور سیدنا رسول اللہ ﷺ خود قبر میں اُترے ۔حضور سیدنا رسول کریم ﷺ کی تمام اولاد اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا سے ہوئی ۔ سوائے صاحبزادہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے۔ اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہااسلام کی عظیم الشان خاتون تھی۔ اللہ تمام امت مسلمہ کی خواتین ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

عرب کا محل وقوع اور قومیں

 

                     عرب کا محل وقوع اور قومیں 

جزیزہ نمائے عرب طبعی اور جغرافیائی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اندرونی طور پر یہ ہر چہار جانب سے صحرا اور ریگستان سے گھرا ہوا ہے جس کی بدولت یہ ایک محفوظ قلعہ بن گیا ہے


Ar-raheeq al-makhtoom ...... Arab ka mohal le waqoo aor qaomeN

سیرت نبوی درحقیقت اس پیغام ربانی کے عملی پرتَو سے عبارت ہے جسے رسُول اللہ ﷺ نے انسانی جمعیت کے سامنے پیش کیا تھا۔ اور جس کے ذریعے انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں اور بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی بندگی میں داخل کر دیا تھا۔ چونکہ اس سیرتِ طیبہ کی مکمل صورت گری ممکن نہیں جب تک کہ اس پیغامِ ربانی کے نزول سے پہلے کے حالات اور بعد کے حالات کا تقابل نہ کیا جائے، اس لیے اصل بحث سے پہلے پیش نظر باب میں اسلام سے پہلے کی عرب اقوام اور ان کے نشوونما کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ان حالات کا خاکہ پیش کیا جارہا ہے جن میں رسُول اللہ ﷺ کی بعثت ہُوئی تھی۔


عرب کا محل وقوع
لفظ عرب کے لغوی معنی ہیں صحرا اور بے آب و گیاہ زمین۔ عہدِ قدیم سے یہ لفظ جزیزہ نمائے عرب اور اس میں بسنے والی قوموں پر بولا گیا ہے۔

عرب کے مغرب میں بحر احمر اور جزیرہ نمائے سینا ہے۔ مشرق میں خلیج عرب اور جنوبی عراق کا ایک بڑا حصہ ہے۔ جنوب میں بحر عرب ہے جو درحقیقت بحر ہند کا پھیلاؤ ہے۔ شمال میں ملک شام اور کسی قدر شمالی عراق ہے۔

ان میں سے بعض سرحدوں کے متعلق اختلاف بھی ہے۔ کُل رقبے کا اندازہ دس لاکھ سے تیرہ لاکھ مربع میل تک کیا گیا ہے۔
جزیزہ نمائے عرب طبعی اور جغرافیائی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اندرونی طور پر یہ ہر چہار جانب سے صحرا اور ریگستان سے گھرا ہوا ہے جس کی بدولت یہ ایسا محفوظ قلعہ بن گیا ہے کہ بیرونی قوموں کے لیے اس پر قبضہ کرنا اور اپنا اثرونفوذ پھیلانا سخت مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ قلب جزیرہ العرب کے باشندے عہد قدیم سے اپنے جملہ معاملات میں مکمل طور پر آزاد و خود مختار نظر آتے ہیں حالانکہ یہ ایسی دو عظیم طاقتوں کے ہمسایہ تھے کہ اگر یہ ٹھوس قدرتی رکاوٹ نہ ہوتی تو ان کے حملے روک لینا باشندگانِ عرب کے بس کی بات نہ تھی۔

بیرونی طور پر جزیرہ نمائے عرب پرانی دنیا کے تمام معلوم براعظموں کے بیچ واقع ہے اور خشکی اور سمندر دونوں راستوں سے ان کا ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کا شمال مغربی گوشہ، براعظم افریقہ میں داخلے کا دروازہ ہے۔ شمال مشرقی گوشہ یورپ کی کنجی ہے۔ مشرقی گوشہ ایران، وسط ایشیا اور مشرق بعید کے دروازے کھولتا ہے، اور ہندوستان اور چین تک پہنچاتا ہے، اس طرح ہر براعظم سمندر کے راستے بھی جزیرہ نمائے عرب سے جڑا ہوا ہے اور ان کے جہاز عرب بندرگاہوں پر براہ راست لنگر انداز ہوتے ہیں۔
اس جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے جزیرہ العرب کے شمالی اور جنوبی گوشے مختلف قوموں کی آماجگاہ اور تجارت و ثقافت اور فنون و مذاہب کے لین دین کا مرکز رہ چکے ہیں۔
عرب قومیں
موٴرخین نے نسلی اعتبار سے عرب اقوام کی تین قسمیں قرار دی ہیں:
(۱) عرب بائدہ۔۔۔ یعنی وہ قدیم عرب قبائل اور قومیں جو بالکل ناپید ہوگئیں اور ان کے متعلق ضروری تفصیلات بھی دستیاب نہیں۔
مثلاً عاد، ثمود، طَم، جدیس، عَمَالِقَہ وغیرہ۔
(۲) عرب عَارِبَہ ۔۔۔۔ یعنی وہ عرب قبائل جو یَعرُب بن یشجب بن قحطان کی نسل سے ہیں، انہیں قحطانی عرب کہا جاتا ہے۔
(۳) عرب مُستَعربہ۔۔۔۔ یعنی وہ عرب قبائل جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں، انہیں عدنانی عرب کہا جاتا ہے۔
عرب عاربہ: یعنی قحطانی عرب کا اصل گہوارہ ملک یمن تھا۔
یہیں ان کے خاندان اور قبیلے مختلف شاخوں میں پھوٹے، پھیلے اور بڑھے۔ ان میں سے دو قبیلوں نے بڑی شہرت حاصل کی:
(الف) حِمیْرِ۔۔۔۔ جس کی مشہور شاخیں زید الجہمور، قُضَاعہ اور سَکَاسِک ہیں
(ب) کہلان ۔۔۔۔۔ جس کی مشہور شاخیں ہمدان، اَنْمَار، طَیْ، مَذْحِجْ، کِنْدہَ، لَخْمَ، جُذَّامْ، اَزْدْاَوسْ، خَزْرَج اور اولاد جفنہ ہیں، جنہوں نے آگے چل کر ملک شام کے اطراف میں بادشاہت قائم کی اور آلِ غسّان کے نام سے مشہور ہوئے۔

عام کہلانی قبائل نے بعد میں یمن چھوڑ دیا اور جزیرة العرب کے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ ان کے عمومی ترکِ وطن کا واقعہ سیل عَرِم سے کسی قدر پہلے اس وقت پیش آیا جب رومیوں نے مصر و شام پر قبضہ کرکے اہل یمن کی تجارت کے بحری راستے پر اپنا تسلط جما لیا، اور بَرّی شاہراہ کی سہولیات غارت کر کے اپنا دباؤ اس قدر بڑھا دیا کہ کہلانیوں کی تجارت تباہ ہو کر رہ گئی۔

کچھ عجیب نہیں کہ کہلانی اور حِمیرَی خاندانوں میں چشمک بھی رہی ہو اور یہ بھی کہلانیوں کے ترکِ وطن کا ایک موٴثر سبب بنی ہو۔ اس کا اشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ کہلانی قبائل نے تو ترکِ وطن کیا لیکن حمیری قبائل اپنی جگہ برقرار رہے۔
جن کہلانی قبائل نے ترکِ وطن کیا ان کی چار قسمیں کی جاسکتی ہیں:
اَزْد۔۔۔۔ انہوں نے اپنے سردار عمران بن عمرو مزیقیاء کے مشورے پر ترکِ وطن کیا۔
پہلے تو یمن ہی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے اور حالات کا پتہ لگانے کے لیے آگے آگے ہراول دستوں کو بھیجتے رہے لیکن آخرکار شمال کا رُخ کیا اور پھر مختلف شاخیں گھومتے گھماتے مختلف جگہ دائمی طور پر سکونت پذیر ہوگئیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
ثَعْلَبہ بن عَمرْو:
اس نے اوّلاً حجاز کا رخ کیا اور ثعلبیہ اور ذی قار کے درمیان اقامت اختیار کی۔
جب اس کی اولاد بڑی ہوگئی اور خاندان مضبوط ہوگیا تو مدینہ کی طرف کوچ کیا اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا۔ اسی ثعلبہ کی نسل سے اَوْس اور خَزْرَج ہیں جو ثعلبہ کے صاحبزادے حارثہ کے بیٹے ہیں۔
حارثہ بن عَمْرو:
یعنی خُزاعہ اور اس کی اولاد یہ لوگ پہلے سرزمین حجاز میں گردش کرتے ہُوئے مَرّالظَّہْران میں خیمہ زن ہوئے، پھر حرم پر دھاوا بول دیا اور بَنُوجُرْہُمْ کو نکال کہ خود مکہ میں بودوباش اختیار کر لی۔

عمران بن عَمْرو:
اس نے اور اس کی اولاد نے عمان میں سکونت اختیار کی اس لیے یہ لوگ ازدعمان کہلاتے ہیں۔
نصر بن ازد:
اس سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تمامہ میں قیام کیا۔ یہ لوگ اَزْدَ شَنُوْءَ ة کہلاتے ہیں۔
حفة بن عَمرْو:
اس نے ملک شام کا رخ کیا اور اپنی اولاد سمیت وہیں متوطن ہوگیا، یہی شخص غَسّانی بادشاہوں کا جَدِ اعلیٰ ہے۔
انہیں آلِ غَسَّان اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے شام منتقل ہونے سے پہلے حجاز میں غَسَّان نامی ایک چشمے پر کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔
لخم و جذّام:
ان ہی لخمیوں میں نصر بن ربیعہ تھا جو حیرہ کے شاہانِ آل مُنْذِر کا جدِ اعلیٰ ہے۔
بنوطَی:
اس قبیلے نے بنو اَزد کے ترکِ وطن کے بعد شمال کا رخ کیا اور اجاء اور سلمیٰ نامی دو پہاڑوں کے اطراف میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہو گیا، یہاں تک کہ یہ دونوں پہاڑیاں قبیلہ طی کی نسبت سے مشہور ہو گئیں۔

کِندْہ:
یہ لوگ پہلے بحرین … موجودہ اَلْاَحْسَاء … میں خیمہ زن ہوئے لیکن مجبوراً وہاں سے دست کش ہو کر حَضْر مُوْت گئے۔ مگر وہاں بھی امان نہ ملی اور آخر کار نجد میں ڈیرے ڈالنے پڑے۔
یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشان حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ مگر یہ حکومت پائیدار نہ ثابت ہوئی اور اس کے آثار جلد ہی ناپید ہو گئے۔

کہلان کے علاوہ حمیر کا بھی ایک صرف قبیلہ قضاعہ ایسا ہے … اور اس کا حمیری ہونا بھی فیہ ہے … جس نے یمن سے ترکِ وطن کر کے حدود عراق میں بادیة السماوہ کے اندر بودوباش اختیار کی۔
(ان قبائل کی اور ان کے ترک وطن کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو، محاضرات تاریخ الامم الاسلامیہ للخضری ۱/۱۱-۱۳،قلب جزیرہ العرب ص۲۳۱- ۲۳۵، ترک وطن کے ان واقعات کے زمانہ اور اسباب کے تعین میں تاریخی مآخذ کے درمیان بڑا سخت اختلاف ہے۔
ہم نے مختلف پہلووٴں پر غور کر کے جو بات راجح محسوس کی اسے درج کر دیا ہے۔)
عرب مُسْتَعْربہ۔۔۔ ان کے جدِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اصلاً عراق کے ایک شہر اُوْر کے باشندے تھے۔ یہ شہر دریائے فرات کے مغربی ساحل پر کوفے کے قریب واقع تھا۔ اس کی کھدائی کے دوران جو کتبات برآمد ہوئے ہیں ان سے اس شہر کے متعلق بہت سی تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں۔
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کی بعض تفصیلات اور باشندگان ملک کے دینی اور اجتماعی حالات سے بھی پردہ ہٹا ہے۔
یہ معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے ہجرت کر کے شہر خران تشریف لے گئے تھے اور پھر وہاں سے فلسطین جاکر اسی ملک کو اپنی پیغمبرانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھااور دعوت تبلیغ کے لیے یہیں سے اندرون و بیرون ملک مصروف تگ و تاز رہا کرتے تھے۔
ایک بار آپ مصر تشریف لے گئے۔ فرعون نے آپ کی بیوی حضرت سارہ علیہ السلام کی کیفیت سنی تو ان کے بارے میں بدنیت ہو گیا اور اپنے دربار میں بُرے ارادے سے بلایا لیکن اللہ نے حضرت سارہ علیہ السلام کی دعا کے نتیجے میں غیبی طور پر فرعون کی ایسی گرفت کی کہ وہ ہاتھ پاؤں مارنے اور پھینکنے لگا۔ اس کی نیت بد اس کے منہ پر مار دی گئی اور وہ حادثے کی نوعیت سے سمجھ گیا کہ حضرت سارہ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی نہایت خاص اور مقرب بندی ہیں اور وہ حضرت سارہ علیہ السلام کی اس خصوصیت سے اس قدر متاثر ہوا کہ اپنی بیٹی ہاجرہ علیہ السلام ( مشہور ہے کہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام لونڈی تھیں لیکن علامہ منصور پوری نے مفصل تحقیق کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ لونڈی نہیں بلکہ آزاد تھیں اور فرعون کی بیٹی تھیں۔
دیکھیے رحمتہ للعالمین ۲/۳۶-۳۷) کو ان کی خدمت میں دے دیا۔ پھر حضرت سارہ علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دے دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت سارہ علیہ السلام، حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو ہمراہ لے کر فلسطین واپس تشریف لائے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہاجرہ علیہ السلام کے بطن سے ایک فرزندِ ارجمند … اسماعیل علیہ السلام… عطا فرمایا لیکن اس پر حضرت سارہ علیہ السلام کو، جو بے اولاد تھیں، بڑی غیرت آئی اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجبور کیا کہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو ان کے نوازئیدہ بچے سمیت جلا وطن کر دیں۔
حالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ انہیں حضرت سارہ علیہ السلام کی بات ماننی پڑی۔ اور وہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ہمراہ لے کر حجاز تشریف لے گئے اور وہاں ایک بے آب و گیاہ وادی میں بیت اللہ شریف کے قریب ٹھہرا دیا، اُس وقت بیت اللہ شریف نہ تھا، صرف ٹیلے کی طرح اُبھری ہوئی زمین تھی، سیلاب آتا تھا تو دائیں بائیں سے کترا کر نکل جاتا تھا۔
وہیں مسجد حرام کے بالائی حصے میں زَمْزَم کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا۔ آپ نے اُسی درخت کے پاس حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا۔ اس وقت مکہ میں نہ پانی تھا نہ آدم اور آدم زاد۔ اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک توشہ دان میں کھجور اور ایک مشکیزے میں پانی رکھ دیا۔ اس کے بعد فلسطین واپس چلے گئے لیکن چند ہی دن میں کھجور اور پانی ختم ہو گیا اور سخت مشکل پیش آئی، مگر اس مشکل وقت پر اللہ کے فضل سے زَمزَم کا چشمہ پھوٹ پڑا اور ایک عرصہ تک کے لیے سامانِ رزق اور متاعِ حیات بن گیا۔
تفصیلات معلوم و معروف ہیں۔ کچھ عرصے بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا، جسے تاریخ میں جَرْہم ثانی کہا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ اسماعیل علیہ السلام کی ماں سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ پہلے مکہ کے گرد و پیش کی وادیوں میں سکونت پذیر تھا۔ صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجود ہے کہ (رہائش کی غرض سے) یہ لوگ مکہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی آمد کے بعد اور ان کے جوان ہونے سے پہلے وارد ہوئے تھے۔
لیکن اس وادی سے ان کا گذر اس سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے متروکات کی نگہداشت کے لیے وقتاً فوقتاً مکہ تشریف لایا کرتے تھے۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس طرح ان کی آمد کتنی بار ہوئی۔ البتہ تاریخی مآخذ میں چار بار ان کی آمد کی تفصیل محفوظ ہے، جو یہ ہے:
۱۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے صاحبزادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کو ذبح کر رہے ہیں۔
یہ خواب ایک طرح کا حکمِ الٰہی تھا اور باپ بیٹے دونوں اس حکمِ الٰہی کی تعمیل کے لیے تیار ہو گئے۔ اور جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بَل لٹا دیا تو اللہ نے پکارا ”اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی اور اللہ نے انہیں فدیے میں ایک عظیم ذبیحہ عطا فرمایا۔

مجموعہ بائبل کی کتاب پیدائش میں مذکور ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام سے تیرہ سال بڑے تھے اور قران کا سیاق بتلاتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پیش آیا تھا۔ کیونکہ پورا واقعہ بیان کر چکنے کے بعد حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت کا ذکر ہے۔
اس واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جوان ہونے سے پہلے کم از کم ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا سفر ضرور کیا تھا۔
بقیہ تین سفروں کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک طویل روایت میں ہے جو ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے:
۲۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہو گئے، جُرہْم سے عربی سیکھ لی اور ان کی نگاہوں میں جچنے لگے تو ان لوگوں نے اپنے خاندان کی ایک خاتون سے آپ علیہ السلام کی شادی کر دی۔ اسی دوران حضرت ہاجرہ علیہ السلام کا انتقال ہو گیا۔
ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا کہ اپنا ترکہ دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ وہ مکہ تشریف لے گئے، لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی۔ بہو سے حالات دریافت کئے۔ اس نے تنگ دستی کی شکایت کی۔ آپ علیہ السلام نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام آئیں تو کہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اس وصیت کا مطلب حضرت اسماعیل علیہ السلام سمجھ گئے، بیوی کو طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کر لی جو جُرہُم کے سردار مضاض بن عَمرو کی صاحبزادی تھی۔

۳۔ اس دوسری شادی کے بعد ایک بار پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لے گئے مگر اس دفعہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی۔ بہو سے احوال دریافت کیے تو اس نے اللہ کی حمد و ثناء کی۔ آپ نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں اور فلسطین واپس ہو گئے۔
۴۔ اس کے بعد پھر تشریف لائے تو اسماعیل علیہ السلام زَمزم کے قریب درخت کے نیچے تیر گھڑ رہے تھے، دیکھتے ہی لپک پڑے اور وہی کیا جو ایسے موقع پر ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا باپ کے ساتھ کرتا ہے۔
یہ ملاقات اتنے طویل عرصے کے بعد ہوئی تھی کہ ایک نرم دل اور شفیق باپ اپنے بیٹے سے اور ایک اطاعت شعار بیٹا اپنے باپ سے مشکل ہی اتنی لمبی جدائی برداشت کر سکتا ہے۔ اسی دفعہ دونوں نے مل کر خانہ کعبہ تعمیر کیا۔ بنیاد کھود کر دیواریں اٹھائیں اور ابراہیم علیہ السلام نے ساری دنیا کے لوگوں کو حج کے لیے آواز دی۔
اللہ تعالیٰ نے مضاض کی صاحبزادی سے اسماعیل علیہ السلام کو بارہ بیٹے عطا فرمائے۔
جن کے نام یہ ہیں: نابت یا نبایوط، قیدار، ادبائیل، مبشام، مشماع، دوما، میشا، حدد، تیما، یطور، نفیس، قیدمان۔
ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور سب نے مکہ ہی میں بودوباش اختیار کی۔ ان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر یمن اور مصر و شام کی تجارت پر تھا۔ بعد میں یہ قبائل جزیرة العرب کے مختلف اطراف میں … بلکہ بیرون عرب بھی … پھیل گئے اور ان کے حالات زمانے کی دبیز تاریکیوں میں دب کر رہ گئے۔
صرف نَابِتْ اور قَیْدار کی اولاد اس گمنامی سے مستثنیٰ ہیں۔
نبطیوں کے تمدن کو شمالی حجاز میں فروغ اور عروج حاصل ہوا۔ انہوں نے ایک طاقتور حکومت قائم کر کے گرد و پیش کے لوگوں کو اپنا باج گذار بنا لیا۔ بَطْراء ان کا دارالحکومت تھا، کسی کو ان کے مقابلے کی تاب نہ تھی۔ پھر رومیوں کا دور آیا اور انہوں نے نبیطوں کو قصہ پارینہ بنا دیا۔
مولانا سیّد سلیمان ندوی رحمتہ اللہ نے ایک دلچسپ بحث اور گہری تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ آلِ غسان اور انصار یعنی اَوس و خَزْرج قحطانی عرب نہ تھے۔ بلکہ اس علاقے میں نابت بن اسماعیل علیہ السلام کی جو نسل بچی کچھی رہ گئی تھی وہی تھے۔
قیدار بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل مکہ ہی میں پھیلتی رہی یہاں تک کہ عدنان اور پھر ان کے بیٹے معد کا زمانہ آ گیا۔
عدنانی عرب کا سلسلہ نسب صحیح طور پر یہیں تک محفوظ ہے۔
عدنان، نبی ﷺ کے سلسلہ نسب میں اکیسویں پشت پر پڑتے ہیں، بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ جب اپنا سلسلہ نسب ذکر فرماتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے اور آگے نہ بڑھتے۔ فرماتے کہ ماہرینِ انساب غلط کہتے ہیں۔ مگر علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ عدنان سے آگے بھی نسب بیان کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق عدنان اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان چالیس پشتیں ہیں۔
بہرحال مَعَدّ کے بیٹے نَزَار سے … جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے علاوہ مَعَد کی کوئی اولاد نہ تھی … کئی خاندان وجود میں آئے۔ درحقیقت نزار کے چار بیٹے تھے اور ہر بیٹا ایک بڑے قبیلے کی بنیاد ثابت ہوا۔
چاروں کے نام یہ ہیں: اِیَاد، انْماَر، ربْیعَہ اور مُضَر، ان میں سے موٴخر الذکر دو قبیلوں کی شاخیں اور شاخوں کی شاخیں بہت زیادہ ہوئیں۔ چنانچہ رَبِیْعَہ سے اسد بن ربیعہ، غزہ، عبدالقیس، وائل، بکر، تَغْلب اور بنو حنیفہ وغیرہ وجود میں آئے۔
مُضَر کی اولاد دو بڑے قبیلوں میں تقسیم ہوئی۔
۱۔ قیس عیلان بن مضر…… ۲۔ الیاس بن مضر
قیس عیلان سے بنو سلیم، بنو ہوازِنْ، بنو غطفان، غطفان سے عَبْس، ذُبْیَان …اَشجَع اور غنی بن اَعْصُرْ کے قبائل وجود میں آئے۔

الیاس بن مضر سے تمیم بن مرہ، ہُذَیْل بن مدرکہ، بنو اسد بن خُزَیْمہ اور کِنَانہ بن خُزَیْمہ کے قبائل وجود میں آئے۔ پھر کِنَانَہ سے قریش کا قبیلہ وجود میں آیا۔ یہ قبیلہ فِہر بن مالک بن نضر بن کِنَانَہ کی اولاد ہے۔ پھر قریش بھی مختلف شاخوں میں تقسیم ہوئے۔ مشہور قریشی شاخوں کے نام یہ ہیں: جمح، سَہْم، عَدِی، مخزوم، تَیم، زُہرہ اور قُصَیّ بن کلاب کے خاندان۔
یعنی عبدالدار، اسد بن عبدالعزی اور عبدِمناف یہ تینوں قُصِی کے بیٹے تھے۔ ان میں عبدِ مناف کے چار بیٹے ہوئے، جن سے چار ذیلی قبیلے وجود میں آئے، یعنی عبدِشمس، نَوفل، مُطَّلِب اور ہاشم، انہیں ہاشم کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور محمد کا انتخاب فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا، پھر اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ کی نسل سے قریش کو چنا، پھر قریش میں سے بنو ہاشم کا انتخاب کیا اور ہاشم میں سے میرا انتخاب کیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے خلق کی تخلیق فرمائی تو مجھے سب سے اچھے گروہ میں بنایا‘ پھر ان کے بھی دو گروہوں میں سے زیادہ اچھے گروہ کے اندر رکھا، پھر قبائل کو چنا تو مجھے سب سے اچھے قبیلے کے اندر بنایا‘ پھر گھرانوں کو چنا مجھے سب سے اچھے گھرانے میں بنایا‘ لہٰذا میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی سب سے اچھا ہوں‘ اور اپنے گھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر ہوں۔

بہرحال عدنان کی نسل جب زیادہ بڑھ گئی تو وہ چارے پانی کی تلاش میں عرب کے مختلف اطراف میں بکھر گئی چنانچہ قبیلہ عبدالقیس نے، بکر بن وائل کی کئی شاخوں نے اور بنو تمیم کے خاندانوں نے بحرین کا رُخ کیا اور اسی علاقے میں جا بسے۔ بنو حنفیہ بن صعب بن علی بن بکر نے یَمامَہ کا رُخ کیا اور اس کے مرکز حجر میں سکونت پذیر ہو گئے۔ بکر بن وائل کی بقیہ شاخوں نے یمامہ سے لے کر بحرین، ساحل کاظمہ، خلیج، سوادِ عراق، اُبُلَّہ اور ہِیت تک کے علاقوں میں بودوباش اختیار کی۔

بنو تَغْلب جزیرہ فراتیہ میں اقامت گزیں ہوئے۔ البتہ ان کی بعض شاخوں نے بنو بکر کے ساتھ سکونت اختیار کی۔
بنو تمیم نے بادیہ بصرہ کو اپنا وطن بنایا۔
بنو سُلَیْم نے مدینہ کے قریب ڈیرے ڈالے۔ ان کا مسکن وادی القری سے شروع ہو کر خیبر اور مدینہ کے مشرق سے گذرتا ہوا حرہ بنو سُلَیْم سے متصل دو پہاڑیوں تک منتہی ہوتا تھا۔
بنو ثقیف نے طائف کو وطن بنا لیا اور بنو ہَوَازِن نے مکہ کے مشرق میں وادی اَوْطاس کے گردوپیش ڈیرے ڈالے، ان کا مسکن مکہ … بصرہ شاہراہ پر واقع تھا۔

بنو اسد تَیمْاء کے مشرق اور کوفہ کے مغرب میں خیمہ زن ہوئے۔ ان کے اور تَیْماَء کے درمیان بنوطی کا ایک خاندان بحتر آباد تھا۔ بنو اسد کی آبادی اور کوفے کے درمیان پانچ دن کی مسافت تھی۔
بنو ذِبْیان تیماء کے قریب حَوْرَان کے اطراف میں آباد ہوئے۔
تِہامہ میں بُنو کَنانَہ کے خاندان رہ گئے تھے۔ ان میں سے قریشی خاندان کی بودوباش مکہ اور اس کے اطراف میں تھی۔ یہ لوگ پراگندہ تھے، ان کی کوئی شیرازہ بندی نہ تھی تا آنکہ قُصَیّ بن کلاب ابھر کر منظر عام پر آیا، اور قریشیوں کو متحد کر کے شرف و عزت اور بلندی و وقار سے بہرہ ور کیا۔