Monday 7 September 2020

Rasool ullah S.. sai Haqeqe Muhabbat k Taqazai

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کےتقاضے 

تم کو کیا چیز اس فعل پر آمادہ کرتی ہے اور کون سا جذبہ تم سے یہ کام کراتا ہے؟“انہوں نے عرض کیا:”اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت“۔


Rasool Allah SAW Se Haqeeqi Mohabbat K Taqaze
”حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ وضو کا پانی لے لے کر (اپنے چہروں اور جسموں پر)ملنے لگے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم کو کیا چیز اس فعل پر آمادہ کرتی ہے اور کون سا جذبہ تم سے یہ کام کراتا ہے؟“انہوں نے عرض کیا:”اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت“۔
ان کا یہ جواب سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت ہو یا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ جب وہ بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے‘اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو ادنیٰ خیانت کے بغیر اس کو اداکرے اور جس کے پڑوس میں اس کا رہنا ہو اُس کے ساتھ بہتر سلوک کرے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرما رہے تھے‘صحابہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کو ہاتھوں میں لے کر اپنے جسموں پر مل رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے دریافت فرمایا کہ وہ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟جو اب میں انہوں نے عرض کیا کہ ہم یہ کام اللہ کی محبت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کر رہے ہیں ۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ تین عمل بتائے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا باعث ہیں۔غور کرنے کا مقام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اس عمل پر نہ تو پسندیدگی کا اظہار کیا اور نہ ہی ناراض ہوئے۔پسندیدگی کا اظہار تو اس لئے نہیں کیاکہ عقیدت پر اکتفا عمل میں کوتاہی کا باعث بنتا ہے اور سہل پسند نفس اس بات کو کافی سمجھتا ہے کہ اُس کا تعلق کسی خدا رسیدہ بزرگ کے ساتھ ہے اور یہ بات اُس کو دوسرے ضروری اعمال کے بجالانے میں سست کر دیتی ہے جوکہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اسلام تو عمل پر زور دیتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کو یہ بات سکھانا چاہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی اخلاق و اقدار کو اپنایا جائے۔عقیدت کے اظہار کا یہی بہترین طریقہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند نہ کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی محفل میں جائیں تو اہل محفل کھڑے ہو کر عقیدت کا اظہار کریں۔
اسی طرح اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا کہ اُن کے وضو کے پانی کو دوسرے لوگ عقیدةً استعمال کریں۔
صحابہ رضی اللہ عنہا کے اس عمل پر نا پسندیدگی کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا مستعمل پانی پاک تھا اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔عام لوگوں کے وضو کا مستعمل پانی پاک نہیں رہتا‘کیونکہ وضو کے پانی کے ساتھ جہاں اعضاء کی گردوغبار یا میل کچیل شامل ہو جاتی ہے وہاں ہاتھ‘پاؤں‘آنکھوں اور کانوں وغیرہ کے صغیرہ گناہ بھی پانی میں مل کر اسے آلودہ اور ناقابل استعمال بنا دیتے ہیں۔
مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء تو نورانیت سے بھر پور تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کے آلودہ ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا‘لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اپنے وضو کے مستعمل پانی کو استعمال کرنے سے روکا نہیں البتہ انہیں تین بہت ضروری اعمال کی ترغیب دی۔پہلی بات یہ کہ ہمیشہ سچ بولیں‘کیونکہ جھوٹ کبیرہ گناہ ہے جو کئی دوسرے گناہوں کا سبب بنتا ہے۔
یہ بہت بڑی اخلاقی کمزوری ہے۔جھوٹ کی عادت انسان کے عزت و وقار کو ختم کر دیتی ہے۔جھوٹ بول کر روزی کمانے سے رزق میں حرام شامل ہو جا تا ہے اور حرام روزی عبادت اور دُعا کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔جھوٹ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقت کی علامتوں میں سے ایک علامت بتایا ہے۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”موٴمن کی طبیعت اور فطرت میں ہر خصلت کی گنجائش ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے“۔

ایک متفق علیہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جھوٹ سے دور رہو‘بے شک جھوٹ بولنے کی عادت آدمی کو سر کشی ونا فرمانی کے راستے پر ڈال دیتی ہے اور سر کشی دوزخ تک پہنچا دیتی ہے “۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بھی اپنے عقیدت مندوں کو ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین فرمائی۔
دوسری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمائی کہ جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو وہ پوری کی پوری واپس لوٹاؤ۔
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کے ارتکاب سے روکا اور امانت داری اپنانے کی تلقین کی۔خیانت بہت بڑی اخلاقی برائی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقت کی علامتوں میں سے ایک علامت خیانت کو قرار دیا ہے۔امانت داری کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ہرمعاہدہ امانت ہے اور اس کی پابندی نہ کرنا خیانت ہے۔اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کا ارتکاب بھی خیانت ہے ۔
کسی حق دار کو اُس کے حق سے محروم کرنا خیانت ہے۔ایک آدمی کسی دوسرے کے ساتھ راز داری کی بات کرتاہے تو اس بات کا ذکر دوسروں کے سامنے کرنا خیانت ہے۔الغرض کسی بھی ذمہ داری کے پورا کرنے میں کوتاہی کرنا امانت میں خیانت کرنا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مستعمل پانی کو جسم پر لینے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو تیسری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمائی کہ اپنے ہمسائے کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں۔
ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”جبرائیل علیہ السلام پڑوسی کے حق کے بارے میں مجھے برابر تاکید کرتے رہے‘یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے“۔
ایک موقع پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اللہ کی قسم کھاکر فرمایا:
”اللہ کی قسم وہ شخص صاحب ایمان نہیں ‘اللہ کی قسم وہ شخص صاحب ایمان نہیں‘اللہ کی قسم وہ شخص صاحب ایمان نہیں!“صحابہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ ومامون نہ ہو۔

ہمسایہ ہر وقت کا ساتھی ہوتا ہے ‘اگر اس کی طرف سے برا سلوک ہو رہا ہوتو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔اس کے برعکس اگر ہمسائے آپس میں حسن سلوک کے ساتھ رہ رہے ہوں تو دونوں کو چین اور سکون میسر ہو گا۔وقت پڑنے پر ایک ہمسایہ دوسرے ہمسائے کا ہمدرد اور غمگسار ہو گا۔حقوق ہمسایہ کے بارے میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اُس کے لئے لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اکرام کا معاملہ کرے“۔

ہمسائے کی تکلیف اور آرام کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ۔ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کے حقوق اس طرح بتائے ہیں:
”اگر بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور خبر گیری کرو۔انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ۔قرض مانگے تو قرض دو۔اگر کوئی برا کام کر بیٹھے تو پردہ پوشی کرو۔اگر اسے کوئی نعمت ملے تو اس کو مبارک باد دو۔
اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو۔اپنی عمارت اس کی عمارت سے اس طرح بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بندہو جائے۔تمہاری ہانڈی کی مہک اس کے لئے باعث ایذانہ ہو‘الایہ کہ اس میں سے تھوڑا سا اس کے گھر بھی بھیج دو۔“
اس سے معلوم ہوا کہ ہمسائیگی کا معاملہ بڑا حساس ہے۔اس لئے ایسی حرکت کبھی سرزد نہیں ہونی چاہیے جس سے ہمسائے کو اذیت پہنچتی ہو‘بلکہ اس کے برعکس ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمسائے کو ہر ممکن طریقے سے نفع پہنچایا جائے۔
ہمسائے کے معاملہ میں جس قدر احتیاط ملحوظ خاطر رکھی جائے کم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہ آدمی مجھ پر ایمان نہیں لایا(اور وہ میری جماعت میں نہیں ہے)جو ایسی حالت میں اپنا پیٹ بھر کر رات کو سو جائے کہ اس کے برابر رہنے والا پڑوسی بھوکا ہو اور اس آدمی کو اس کے بھوکا ہونے کی خبر بھی ہو۔“

No comments:

Post a Comment